نواز طاہر :
تحریک انصاف نے مینارِ پاکستان پر جلسے کے دوران گریٹر اقبال پارک ایک بار پھر اجاڑ دیا۔ جلسے کیلئے اجازت لینے سے پہلے کیے جانے والے معاہدے کی پاسداری کی کھلے عام دھجیاں اڑائی گئیں۔ گریٹر اقبال پارک کے پودوں، درختوں، آہنی جنگلوں، گملوں، راہداروں، فواروں اور پھولوں کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تقریباً تین کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس بھی پی ٹی آئی جلسے کے دوران گریٹر اقبال پارک کے پھولدار پودے اور سایہ دار درختوں سمیت سبزہ زار کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ اسی بات کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ پی ٹی آئی کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت دینے کیلئے رضا مند نہیں تھی۔ لیکن عدالتی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ اور پی ٹی آئی کی قیادت کے مابین مذاکرات کے بعد کڑی شرائط کے ساتھ جلسے کی اجازت دی گئی تھی۔ دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ ایک شرط یہ بھی عائد کی گئی تھی کہ، جلسے کے دوران کسی صورت میں پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچنے کی صورت میں پی ٹی آئی کی متعلقہ انتظامیہ ذمہ دار ہوگی۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس اجازت نامے کے وقت گریٹر اقبال پارک کی انتظامیہ سے کوئی رپورٹ نہیں لی گئی تھی اور نہ ہی اس کی رضامندی لی گئی تھی۔ اس بات کی تصدیق پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل طاہر وٹو نے خود کی اور بتایا تھا کہ ڈپٹی کمشنر نے جلسے کی اجازت دیتے وقت ہم سے مشورہ نہیں لیا تھا۔ یاد رہے کہ ایک سال قبل بھی پی ٹی آئی نے اسی مقام پر جلسہ کیا تھا۔ اس دوران نہ صرف پارک کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا تھا، بلکہ تین سے چار روز تک ملبہ بھی نہیں اٹھایا جا سکا تھا۔ اب ایک سال کے بعد جب ضلعی انتظامیہ نے عدالتی مداخلت پر جلسے کی اجازت دیتے ہوئے پچھلے سال کے نقصان کو سامنے رکھ کر شرائط عاید کیں، تب بھی ان شرائط کی پاسداری دکھائی نہیں دی۔
مینارِ پاکستان گرائونڈ میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تیاریوں کے دوران بڑی بڑی گاڑیاں، کرینوں اور ٹرالروں پر رکھ کر بڑی تعداد میں لائے جانے والے کنٹینروں کو گذارتے وقت گھاس، گملوں اور پودوں کا کچھ خیال نہیں رکھا گیا۔ اگر ہم احتیاط کی بات کرتے تھے تو سختی کی جاتی تھی۔ بلکہ بعض پی ٹی آئی عہدے دار تو ہمیں گالیاں بھی بکتے رہے۔ لیکن ہم چھوٹے لوگ ( مالی ، بیلدار، مزدور) ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ ہمیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور ہم تباہی ہوتی دیکھتے اورکڑھتے رہے ۔ پھر جلسہ ہوگیا تو گملے ، پودے اور ٹوٹے آہنی جنگلے سب کے سامنے ہیں۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہمارا بھی اتنا ہی پاکستان ہے، جتنا دوسروں کا۔ ہمارا خون پسینہ اس سبزہ زارکو سینچنے میں شامل ہے، اس لیے تکلیف ہوتی ہے۔
جلسے کے بعد پارک اینڈ ہارٹیکلچر اٹھاری کی طرف سے تحریکِ انصاف کی جلسے کی انتظامیہ کو پارک کوپہنچنے والے نقصان کی قیمت ادا کرنے کیلئے ایک مراسلہ لکھا گیا ہے اور ساتھ ہی نقصانات کی تٖفصیل بھی ارسال کی گئی ہے۔ اس تخمینہ کے مطابق جلسے کے دوران اور تیاریوں کے عمل میں کھالوں اور فواروں کے درمیان پانی کی جگہ کو چالیس لاکھ، پچاس ہزار کا نقصان پہنچا۔
مختلف احاطوں کو بائیس لاکھ پچاس ہزار اور گھاس کو اٹھارہ لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ پھولوں میں گلوچا کاشیا، مورپنکھ، چاندنی وغیرہ کے پودوں کو سات لاکھ چھیاسی ہزار۔ پیلکاں، کچنار اور نیم کے پودوں کو دس لاکھ روپے۔ پیٹونیا کے پھولوں کو سات لاکھ بانوے ہزار روپے کا نقصان پہنچا۔ (اس سب کی بحالی کیلئے مزدوری وغیرہ کے اخراجات کا تخمیہ انتیس لاکھ انیس ہزار روپے بحساب ایک سو مزدور ایک ماہ لگایا گیا ہے )۔ اجتماع کے دوران انجینئرنگ کے شعبے کو آرائشی لائٹوں کے کھبموں کی مد میں نو لاکھ چھیانوے ہزار روپے۔ ڈسٹ بن باسکٹس کو دس لاکھ چودہ ہزار۔ مینار پاکستان کے فوارے کی ایک ہارس پاور کی موٹر کو اکتیس ہزار پانچ سو روپے۔ اسپاٹ لائٹس ایک لاکھ چون ہزار۔ گیٹ نمبر پانچ ٹوٹنے کا بارہ ہزار پانچ سو۔ قومی میوزیم کے معلوماتی بورڈ ٹوٹنے کا چار ہزار تین سو۔
ڈیک فائونٹین کی مرمت بائیس لاکھ۔ گریٹر اقبال پارک کی راہداریوں کو پہچنے والے نقصان کا تخمینہ باون لاکھ روپے۔ اسٹیل کی فینس کو پہنچنے والے نقصان کی مالیت چھبیس لاکھ پچاس ہزار روپے۔ فلڈ لائٹس کوپانچ لاکھ بائیس ہزار روپے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کو دو لاکھ بیس ہزار روپے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کے پینل باکس کا نقصان ایک لاکھ چالیس ہزار روپے۔ گریٹر اقبال پارک میں پودوں اور گھاس کے آبپاشی کے نظام کو سولہ لاکھ پچاس ہزار روپے اور نکاسی آب کے نظام کو نو لاکھ پچاس ہزار روپے کا نقصان پہنچا۔
اس ضمن میں جب پنجاب کی نگراں حکومت کے وزیر اطلاعات عامر میر سے یہ سوال کیا گیا کہ گریٹر اقبال پارک کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کیلئے حکومت کیا اقدامات اٹھائے گی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ جو نقصان ہوا ہے، اسے دیکھنا متعلقہ ادارے پی ایچ اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاملات دیکھ رہا ہوگا۔ انہیں معلوم نہیں کہ کیا کارروائی ہوئی ہے یا کیا ہورہی ہے؟ تاہم یہ پی ایچ اے ہی کی ذمہ داری ہے۔
دوسری جانب پی ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل طاہروٹو سے بار بار رابطہ کرنے پر بھی انہوں نے بات کرنے سے گریز کیا تو کچھ اہلکاروں نے آف دی ریکارڈ بتایا کہ ڈی جی پی ایچ اے نے بحیثیت سربراہ ادارہ، مراسلہ لکھ دیا ہے۔ اب ضلعی انتظامیہ ہی باقی امور انجام دے سکتی ہے۔ اس کے برعکس پی ایچ اے کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ قومی املاک کو نقصان پہنچانے کیخلاف قانون بھی موجود ہے۔ اور جلسہ کرنے کیلئے عائد کی گئی شرائط پرعملدرآمد نہ کرنے پر بھی کارروائی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ریکوری کا پہلے ہی قانون موجود ہے۔ اس قانون کے تحت بھی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ لیکن لگتا نہیں کہ حکومت کوئی اگلا قدم اٹھائے۔
ادھر روایتی ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے پی ٹی آئی نے پی ایچ اے کا موقف ماننے سے انکار کردیا گیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ نقصان کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے، وہ غلط ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف لاہورکے صدر امتیاز شیخ ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’پی ایچ اے کی طرف سے نوٹس موصول ہونے کے بعد میں نے خود ایک جواب پی ایچ اے کو ارسال کیا ہے اور چیلنج کیا ہے کہ جتنا نقصان نوٹس میں لکھا گیا ہے، اسے ثابت کیا جائے۔