محمد قاسم :
خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت نے سوشل میڈیا کے ذریعے بیانیہ کو پروان چڑھانے اور مخالفین کیخلاف پروپیگنڈے کی خاطر سوشل میڈیا ونگ میں بھرتی افراد کیلیے 87 کروڑ روپے مختص کیے تھے۔
’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق بھرتی کیے جانے والے نوجوانوں میں اکثریت پی ٹی آئی رہنمائوں کے رشتہ داروں کی تھی۔ واضح رہے کہ چند روز پہلے خیبر پختونخوا کے نگراں وزیر اطلاعات نے انکشاف کیا تھا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے سوشل میڈیا ونگ کیلئے پانچ ہزار بھرتیاں کر کے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ تاہم ’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق یہ تعداد 1200 ہے۔ ایک سالہ کنٹریکٹ پر بھرتی کردہ ان سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو ماہانہ پچیس ہزار روپے فی کس ادا کیے جا رہے ہیں۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ خود اس بات کا انکشاف کرنے والے نگراں حکومت انہیں نہیں نکال سکی ہے۔ ان میں سے تقریباً ایک ہزار افراد محکمہ اطلاعات کے ذریعے بھرتی کئے گئے، جس کے لئے فیس بک پر پانچ ہزار سے زائد ویورز رکھنے والے یوٹیوبرز کو بھرتی کیا گیا۔ جن میں بیشتر پی ٹی آئی کے ممبران پارلیمان کے رشتہ دار تھے۔ جنہوں نے جعلی یوٹیوب چینل بنائے ہیں ۔ان میں اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو پی ٹی آئی کے ایم این ایز، ایم پی ایز کے رشتہ دار ہیں اور وہ ابھی بھی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔ ہر ضلع سے تیس سے لیکر پچاس کے درمیان نوجوانوں کو بھرتی کیاگیا ہے۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق بجٹ 2023-23ء میں اس کے لئے 87کروڑ روپے منظور کئے گئے اور بجٹ دستاویز میں ان کا مکمل ذکر کیا گیا ہے کہ حکومتی کارکردگی کو اجاگر کرنے کے لئے سوشل میڈیا کے انفلوئنسرز کو یک سالہ کنٹریکٹ پر رکھا جائے گا۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کے ممبران نے اپنے رشتہ داروں اور خاص کر ان طلبہ کو جو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں کو بھرتی کیا تھا۔ بظاہر مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اس رقم کے ذریعے بھرتی کیے جانے والے یو ٹیوبر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کریں گے۔ تاہم اس کے برعکس ہوا۔ اور پی ٹی آئی رہنمائوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے اکثریتی بنیادوں پر اپنے رشتہ داروں کو بھرتی کرا دیا۔ ان میں ایسے یوٹیوبرز بھی ہیں جن کو یوٹیوب چینل چلانا دور کی بات، انہیں کیمرے اور مائیک پر بات کرنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں چترال سے لیکر ایبٹ آباد تک تمام اضلاع میں پی ٹی آئی سے وابستہ نوجوانوں کو بغیر کسی میرٹ کے نوازا گیا ہے۔
معلومات کے مطابق محکمہ اطلاعا ت کے ذریعے ایک ہزارکے قریب افراد کو ایک سالہ کنٹریکٹ پر بھرتی کیاگیا ہے جبکہ دوسو کے قریب افراد دیگر محکموں کے ذریعے بھرتی کئے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے محکمہ اطلاعات کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ’’امت‘‘ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ زیادہ تر یہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اب بھی اپنے گھروں میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کے لئے مہم چلارہے تھے۔ لیکن صوبائی وزیر اطلاعات فیروز خان کی جانب سے کیس کو ایف آئی اے تک لے جانے کی دھمکی کے بعد اب صرف دس سے بارہ فیصد بھرتی کئے گئے لوگ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ جبکہ کئی افراد نے اپنے اکائونٹس کو غیر فعال رکھا ہے اور حکومت سے پیسے لے رہے ہیں ۔
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کے لئے ایک سالہ کنٹریکٹ پر بھرتی کئے گئے افراد کے حوالے سے صوبائی وزیر بیرسٹر فیروز کاکا خیل کی درخواست ابھی تک ایف آئی اے کو موصول نہیں ہوئی اور تحقیقات بھی نہیں ہوئیں۔ کیونکہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی حکومتی اقدامات سامنے نہیں آئے۔
جبکہ محکمہ اطلاعات کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق جون 2022ء کے بجٹ میں ایک سال کنٹریکٹ کے لیے جب تقریباً87 کروڑ روپے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے لیے رکھے گئے تو اس وقت تمام پارٹیوں کے لوگ موجود تھے، انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا سوائے جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان کے۔ لیکن اب قانونی طور پر 30جون 2023ء سے قبل ان کو برطرف کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے لئے منظوری صوبائی اسمبلی سے لی گئی ہے۔
عہدیدار کے مطابق محکمہ اطلاعات کے ذریعے بھرتی کیے گئے تمام افراد کا ڈیٹا موجود ہے اور ان افراد کے نمبرز بھی محکمہ اطلاعات کے پاس ہیں۔ تاہم محکمہ اطلاعات کے عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی کہ سوشل میڈیا کے یہ انفلوئنسرز اب غیر فعال لگ رہے ہیں۔ کیونکہ اب دیگر پارٹیوں کے سوشل میڈیا کارکنوں کی ان پر نظر ہے۔ کیونکہ ان کے ساتھ ایک سال کنٹریکٹ کا معاہدہ کیاگیا ہے، لہذا جون 2023ء تک یہ لوگ تنخواہیں لینے کے حقدار ہیں ۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ صوبائی حکومت نے ان کو برطر ف کرنے کا اعلان کیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی برطرفی عدالت کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ کیونکہ معاہدے کے مطابق جون تک کی تنخواہ کے وہ حقدار ہیں اور آئندہ تین ماہ کا کنٹریکٹ باقی ہے۔ عہدیدار سے جب پوچھا گیا کہ پانچ ہزار سے زائد لوگوں کی بھرتی کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کے مطابق جو بھرتیاں کی گئی تھیں وہ محکمہ اطلاعات کے ذریعے کی گئی تھیں۔ اور اس کی آن لائن رجسٹریشن کے لئے اشتہار دیاگیا تھا جس میں کچھ ویب سائٹس بھی شامل ہیں اور ان ویب سائٹس پر شائع شدہ مواد کا جائزہ لیکر ہی ان کو ادائیگی کی جاتی ہے۔
تاہم دوسری جانب ’’امت‘‘ کی معلومات کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے صوبائی محکموں میں پراجیکٹ میں اپنے ایسے لوگوں کو بھرتی کیا تھا کہ ان کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ حکومتی کاموں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے بیانیہ کو آگے بڑھائیں۔ تاہم ایف آئی اے او ر دیگر تحقیقاتی اداروں کی جانب سے تحقیقات شروع کرنے کے بعد اکثریت نے اپنے اکائوٹنس ڈی ایکٹیویٹ کر دیے ہیں۔
اس حوالے سے موقف جاننے کیلیے صوبائی وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز کاکاخیل سے کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔