اقبال اعوان :
کراچی میں گیس بحران کم نہ ہونے پر شہریوں کا رمضان پھیکا پڑنے لگا۔ گیس بندش کا سلسلہ بڑھنے پر غریب شہری افطاری اور سحری کا سامان باہر سے لانے لگے۔ جبکہ سلنڈر رکھنے والے ایل پی جی فلنگ کرانے والوں کو اضافی قیمت دینے پر مجبور ہیں۔ کم گیس ڈالنے اور فی کلو گیس 30 سے 50 روپے اضافی قیمت وصولی کا سلسلہ بڑھ گیا۔ جبکہ سحری کے اوقات میں پراٹھے، چائے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا مہنگی فروخت کی جانے لگیں۔
ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ محمد اسحاق خان کا کہنا ہے کہ رمضان میں کارخانے بند ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایل پی جی کا کمرشل استعمال تندور، ہوٹلوں، ریستورانوں، کھانے پینے کی اشیا کے اسٹال والوں، مٹھائی والوں، رکشہ، ٹیکسی والوں تک ہے۔ جبکہ گھریلو استعمال کی کھپت دگنی ہو گئی ہے۔ اس طرح موقع پرست ایل پی جی پر خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی کے لیے پانی اور بجلی کا بحران ہی کم نہ تھا کہ رمضان کے دوران گیس بحران کم نہیں ہو سکا ہے۔ گیس کمپنی نے وزیراعظم کی ہدایات پر اپنا گیس فراہمی کا شیڈول جاری کیا تھا کہ سحری اور افطاری کے دوران گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ گیس کمپنی نے رمضان سے ایک دو روز قبل شیڈول جاری کیا تھا کہ رات ڈھائی بجے سے ات بجے تک رمضان میں گیس فراہمی کا سلسلہ جاری ہو گا۔
دوپہر ساڑھے بارہ بجے سے دو بجے تک اور افطاری کی تیاری اور رات کے کھانے کے لیے ساڑھے 4 بجے سے پہر سے رات 9 بجے تک گیس فراہم کی جائے گی۔ لیکن رمضان کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی گیس بحران بڑھ گیا اور فراہمی کے اوقات میں بھی گیس بند ہونا شروع ہو گئی۔ اب دن بدن صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے۔
شاہ فیصل کالونی نمبر 5 ملیر کے علاقوں، لیاری، لیاقت آباد، کورنگی، لانڈھی، بلدیہ، کیماڑی، شیرشاہ، گلشن اقبال اور دیگر علاقوں میں گیس کی بندش کا سلسلہ جاری ہے اور لوڈشیڈنگ تو اپنی جگہ غیر اعلانیہ بندش بڑھتی جارہی ہے۔ شہری پانی، بجلی کے بعد اب گیس کی بندش کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
سحری میں گیس کی بندش کے بعد شہری سڑکوں پر آکر احتجاج کررہے ہیں اور رمضان میں شہری خصوصی طور پر سحری کے اوقات میں ہوٹلوں، تندور، دودھ دہی کی دکانوں کا رخ کرتے ہیں جہاں رش بڑھتے دیکھ کر قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور لائنوں سے لگ کر اشیا خریدی جاتی ہے۔ غریب طبقہ تو ایل پی جی کا استعمال نہیں کر سکتا کہ معمولی سلنڈر بھی دگنی قیمت کے ساتھ 3 سے 7 ہزار روپے میں مل رہا ہے۔ شہر میں ایل پی جی فلنگ کی دکانوں کی تعداد 600 کے قریب ہے جو انتہائی ناکافی ہے اور کئی علاقوں کو ایک دکان کنٹرول کرتی ہے اور وہاں گیس بھرانے والوں کا رش رہتا ہے۔
ایل پی جی کی فی کلو قیمت 290 روپے تھی اور رمضان میں 260 روپے کلو تک کی گئی تھی۔ تاہم دکاندار فی کلو 210 سے 230 تک فروخت کررہے ہیں۔ جبکہ فلنگ کی دکان کے اندر گیس بھرانے والے نہیں جا سکتے ہیں۔ لہٰذا گیس کم بھرنے کی شکایت بھی مل رہی ہے۔ اب کراچی کے اندر کچی آبادی، ساحلی یا مضافاتی آبادیوں میں لکڑی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن فلیٹ والے، کم جگہ کے گھر والے لکڑی، کوئلہ نہیں جلا سکتے۔ لہٰذا ایل پی جی گیس کا استعمال دگنا ہو چکا ہے۔ شام کو افطاری کے لیے بنائی گئی اشیا مہنگی فروخت کی جاتی ہیں کہ ایل پی جی مہنگی مل رہی ہے۔
گیس کی بندش کی پریشانی بڑھنے اور سحری افطاری کی اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے شہریوں کی جیبوں پر خاصا بوجھ آرہا ہے۔ کراچی کے شہری پریشان ہو کر رہ گئے ہیں کہ گیس کمپنی گیس چوری بڑھنے اور لائنوں میں پانی بھرنے کا جواز بنا کر گیس کی کمی کو بتا رہی ہے۔ علاقوں میں گیس کی بندش کے بعد اگر گیس آجاتی ہے تب بعض صارفین نے گیس کھینچنے والی بڑی بڑی غیرقانونی مشینیں لگا رکھی ہیں اور بغیر مشین والوں کو گیس نہیں ملتی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ گیس کی بندش سے معمول زندگی متاثر ہے کہ خواتین راتوں کو جاگتی ہیں کہ شاید گیس آجائے تو فوری طور پر چائے، پراٹھے، دیگر ڈشیں سحری کے لیے بنا لیں اور دن بھر افطاری یا دیگر اشیا کی تیاری کے لیے چولھے کا وال کھول کھول کر دیکھتی ہیں۔
کراچی میں ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ محمد اسحاق خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گیس کی صورت حال بہت خراب ہے ان کے علاقے بنارس میں بھی گیس کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ رمضان میں عام طور پر ہر سال ایل پی جی کی کھپت 60 فیصد رہ جاتی تھی کہ کارخانے بند ہوتے تھے اور ہوٹل، تندور اور دیگر استعمال کرنے والی دکانیں کم وقت کے لیے کھلتی تھیں۔ اس بار گھریلو استعمال دگنا ہو چکا ہے تاہم کمرشل استعمال گاڑیوں، رکشوں، تندور، ہوتل، ریستوران تک محدود ہے ان کا کہنا ہے کہ رمضان میں ایل پی جی کی قیمتیں کم ہوئیں۔ تاہم خدا سے نہ ڈرنے والے منافع خور مرضی سے گیس فروخت کررہے ہیں اور شہری پریشان ہیں۔