صدر مملکت تاخیری حربے استعمال کر سکتے ہیں

نواز طاہر :
ماہرین آئین و قانون کے مطابق ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی میں صدرِ مملکت تاخیری حربے استعمال کر سکتے ہیں۔ بعض آئینی ماہرین اسے آئندہ ایام میں اختیارات کی جنگ کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کے اختیارات کے حوالے سے حال ہی میںقومی اسمبلی اور سینیٹ سے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ‘ منظور کروایا ہے جو صدر کو بھجوایا جاچکا ہے۔ جبکہ صدر اس بل کے بارے میں ایک بیان پہلے ہی دے چکے ہیں کہ وہ اس کا جائزہ لیں گے، جس کے بعد اس کی منظوری کا فیصلہ کریں گے۔ اسی دوران پی ٹی آئی کے ذرائع کے حوالے سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ صدرِ مملکت اس بل پر دستخط کرنے کے بجائے واپس بھجوا دیں گے۔

آئینی ماہرین کے مطابق قانون سازی کے طے شدہ طریق ِ کار کے تحت اس بل کو قانون بنانے کیلیے دوبارہ اس کی منظوری ضروری ہوگی جس کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ اسی دوران لاہور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے اجلاس میں بھی صدر کی جانب سے بحیثیت صدرِ مملکت نہیں بلکہ ’ایک پارٹی کے صدر‘ کے طور پر عمل کرنے کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

اس قانون میں عدلیہ کے عوامی مفاد کے معاملات میں سوموٹو نوٹس سمیت کچھ امور کا طریقِ کار متعین کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اس بل کی منظوری کو قانون بننے کی صورت میں عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ تاہم اسی دوران کسی دوسری پارٹی کی جانب سے بھی اسے چیلنج کیے جانے کا امکان ہے۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سنہ انیس سو پچاسی میں غیرجماعتی انتخابات کے بعد اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کوشوں سے مارشل لا کے خاتمے کے بعد سے سول اختیارات بحال ہونے پر لاہور ہائیکورٹ نے مختلف امور پر ملک بھر کی چاروں ہائیکورٹس میں سب سے زیادہ سوموٹو نوٹس لیے تھے۔ تب سے نہ صرف چیف جسٹس بلکہ لاہور ہائیکورٹ کے دیگر جج صاحبان بھی اس اختیار کا عوامی مفاد میں استعمال کرتے رہے ہیں۔

اس حوالے سے جناب جسٹس منیر خان ( مرحوم ) کے مقدمات کو شہرت ملی تھی۔ بعد میں یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ یہ اختیار کس حد تک استعمال ہونا چاہیئے؟ کیا تمام ججوں کو اس کے استعمال کا ختیار حاصل ہے یا صرف چیف جسٹس کو ہی یہ اختیار حاصل ہے؟ اس کا جائزہ لینے کیلئے ایک فل بنچ تشکیل دیا گیا جس نے چار سے پانچ بار اس کی سماعت کی اور پھر یہ بنچ تحلیل ہوگیا اور اس کے بعد کبھی دوبارہ تشکیل نہ دیا جاسکا۔

خواجہ محمد شریف لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے تو انہوں نے صوبائی چیف جسٹس کی حیثیت سے بھی انتظامی ریاستی امور میں عوامی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ریاستی اداروں کے بروقت اقدامات نہ اٹھائے جانے یا عدم توجہی جیسے امور پر کئی بار از خود نوٹس لیکر حکام سے رپورٹ حاصل کی اور اس کے مطابق ہدایات جاری کیں۔ سو موٹو کی تاریخ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا دور سب سے نمایاں رہا، جس میں حکومت کو قانون سازی میں ان مسائل کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ساتھ ہی بنچوں کی تشکیل کے اختیارات کے امور بھی زیر بحث آئے تھے۔

اس ضمن میں قانون دان جلیل الرحمان کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ماضی کی روایات کے بنا پر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے یہ اختیار استعمال کیے تھے۔ لیکن بعد میں چیف جسٹس کو کُلی اختیار کا حامل قرار دیدیا گیا تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’مقننہ کو قانون سازی کا کُلی اختیار حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو جائزہ لینے کا اختیار ہے، جس نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ قانون سازی کی منشا اجتماعی مفاد ہے یا کسی خاص مقصد یا فرد کو سامنے رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے؟ موجودہ حالات میں ایسا امکان ہے کہ جیسے ہی حالیہ بل پر بات آگے بڑھے گی توعدالتی فیصلوں کی روشنی اور نظائر کو سامنے رکھتے ہوئے اس قانون کو کالعدم قراردیئے جانے کے واضح امکانات ہیں۔‘‘
دوسری جانب قانون دان عامر سہیل کا کہنا تھا کہ ’’مقننہ نے آئین میں ترمیم نہیں کی۔ بلکہ

قانون سازی کی ہے اور یہ اس کا اختیار و حق ہے۔ ممکنہ طور پر یہ معاملہ پیچیدگیوں کی جانب بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ اور یوں لگ رہا ہے کہ نا صرف اختیارات کے حوالے سے گھمسان کا رن پڑے گا، بلکہ بڑی تباہی بھی دکھائی دے رہی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ معاملہ طول پکڑ جائے گا۔ حالانکہ قانون سازی اور اس کی تشریح اپنی اپنی حدود میں رہ کر ہونا چاہیے۔ مگر اداروں کی تقسیم نئے بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ججوں کی تقسیم سے لگتا ہے کہ ایک دوسرے کے حامی اور مخالف جج ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کوتیار نہیں ہوں گے اور جو فیصلے بھی آئیں گے، بھلے وہ آئینی و قانونی طور پر بہت اعلیٰ اور مثالی قرار دیے جانے کے لائق بھی ہوںگے، لیکن انہیں کسی اور نظر سے دیکھا جائے گا۔‘‘

عامر سہیل ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’’عدلیہ اور مققننہ کو چاہیئے یہ تھا کہ امریکی طرز پر سپریم کورٹ اور فیڈرل کورٹ الگ الگ کردی جاتیں۔ سپریم کورٹ معمول کے مقدمات نمٹاتی اور فیڈرل کورٹ میں تمام صوبوں سے ایک ایک جج لیکر کر پانچواں اس کا چیف جسٹس بنادیا جاتا، جو آئینی امور دیکھتا۔ اس طرح معمول کے مقدمات متاثر ہوتے اور نہ ہی آئینی امور پر مسائل جنم لیتے۔ میں اب بھی یہی تجویز کرتا ہوں کہ حالات قابو میں رکھنے کیلئے اسی جانب بڑھا جائے۔ بصورتِ دیگر سیاسی جماعتوں اور ججوں کے باہمی اختلافِ رائے نے ملک اور ملکی قانون کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ جو قانون سازی کی گئی ہے، اس کی مخالفت وہ ادارے ( وکلا) بھی کررہے ہیں جو پچھلے سال تک ایسے ہی قانون سازی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور ان کی قراردادیں اور بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں۔‘‘