محمد قاسم :
پشاور میں سکھ برادری نے بھی مذہبی رواداری کی مثال قائم کر دی ہے۔ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نہ صرف روزہ داروں کے لئے افطاری کا اہتمام کر رہے ہیں۔ بلکہ کھلے عام کھانے پینے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ پشاور کے علاقہ ڈبگری سمیت محلہ جوگن شاہ کے اطراف سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد افطار دسترخوانوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ جبکہ راہ چلتے روزہ داروں کو بھی افطار کی اشیا فراہم کی جارہی ہیں۔ علاوہ ازیں رکشہ و ٹیکسی ڈرائیوروں کو افطاری پہنچانے کا بھی انتظام ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پشاورکی سکھ برادری نے گزشتہ اس سال بھی افطاری کا خصوصی اہتمام کر رکھا ہے اور ڈبگری سمیت محلہ جوگن شاہ کے اطراف اور لیڈی ریڈنگ اسپتال میں افطاری کا سامان پہنچا رہے ہیں۔ جس میں محنت کش، دیہاڑی دار مزدور اور مختلف اضلاع سے بیماروں کے ساتھ آئے ہوئے تیمارداروں کو افطاری کرائی جارہی ہے۔ ان افطار دسترخوانوں میں بازار وں میں کام کی غرض سے آنے والے مسافر اور غریب افراد بھی افطاری کر رہے ہیں۔
محلہ جوگن شاہ سے تعلق رکھنے والے دلیر سنگھ نے’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ افطاری سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے دو بڑے بڑے شاپر اٹھا کر قصہ خوانی بازار پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک بڑا کاروباری مرکز ہے۔ یہاں پر کاروبار ہفتے کے ساتوں دن جاری رہتا ہے اور قریب ہی خیبر بازار اور کوہاٹی بھی واقع ہے۔ جہاں پر بھی بڑی تعداد میں محنت کش مزدوری کرتے ہیں۔ یہاں پر دفاتر ہیں اور ملازمین اکثر گاڑیوں کے رش میں پھنس جاتے ہیں یا گھروں کو افطاری کیلئے جاتے ہوئے دیر ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ یہاں پر ان افراد کی خدمت کے لیے حاضر رہتا ہوں اور انہیں جوس کے ڈبے، شربت اور کھجوروں سمیت چاول وغیرہ دیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ خود بھی اس دوران کچھ کھاتے پیتے نہیں، بلکہ اذان کا انتظار کرتے ہیں۔ جیسے ہی مغرب کی اذان ہو جائے اور لوگ روزہ افطار کریں وہ خود بھی کچھ کھا پی لیتے ہیں۔ جبکہ بعض اوقات بازار میں مسلمانوں کے ساتھ لگائے گئے دستر خوانوں پر ہی افطاری کرتے وقت شریک ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھا نہیں لگتا کہ اپنے روزہ دار ساتھیوں کے سامنے کھاؤں پیوں۔ اخلاقی اعتبار سے معیوب محسوس ہوتا ہے اور پھر رمضان المبارک کا احترام بھی ہے۔ اسی طرح محلہ جوگن شاہ سے تعلق رکھنے والے بل بیرسنگھ نے بتایا کہ ان سے پہلے ان کے باپ دادا ہر رمضان المبارک میں افطاری کا اہتمام کرتے تھے اور خاص کر محنت مزدوری کرنے والے راہ چلتے محنت کشوں کو افطاری کی دعوت دیتے۔ جبکہ ہمیں ان دنوں میں لوگوں کو دسترخوانوں تک لانے کی ڈیوٹی دی گئی تھی اور ہمیں خاص تاکید کی جاتی تھی کہ رمضان کے مہینے میں کھلے عام کوئی چیز کھانی پینی نہیں ہے۔ بلکہ اگر بھوک اور پیاس لگے تو گھر میں آکر پانی پینے سمیت کوئی بھی چیز کھا سکتے ہیں۔ والدین کی اسی نصیحت پر آج بھی عمل کر رہے ہیں اور ہم نے اپنے بچوں کو بھی یہی تاکید کر رکھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ڈبگری میں دسترخوان کا اہتمام کر رہے ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی پیدل چلنے والے افراد کیلئے پانی کی بوتلوں سمیت شربت، کھجوریں اور فروٹ کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افطاری میں شربت، کھجور، پکوڑے، سموسے اور پھل، جبکہ بعد میں کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ نیک جذبے کے تحت کیا جارہا ہے۔ تاکہ مسافروں اور بے بس لوگوں کی مدد کی جاسکے۔ جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں کاروبار سے وابستہ سکھوں کا کہنا ہے کہ وہ رمضان کے دوران اشیائے خور ون وش کی قیمتوں میں منافع نہیں کمارہے۔ بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ارزاں نرخوں پر اشیا فروخت کریں۔ بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری اور بھائی چارگی کی بہترین مثال ہر سال رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں دکھائی دیتی ہے۔ جب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ برادری بھی رمضان کے مہینے میں ایک ہی دسترخوان پر نظرآتے ہیں۔ مسلمانوں کی خدمت سکھ برادری کے افراد اور خصوصاً نوجوان اور بچے کر رہے ہوتے ہیں۔
سکھ برادری کی جانب سے دی جانے والی افظاری میں پہلے صرف پشاور شہر کے لوگ شریک ہوتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشاورکاروبار کا بڑا مرکز بن گیا اور اب دیگر شہروں سے بھی وہ لوگ جو پشاور میں کاروبار اور محنت مزدوری کی غرض سے مقیم ہیں یا صوبے کے دوسرے اضلاع سے علاج معالجہ کیلئے پشاور آئے ہوئے ہیں۔ ان دسترخوانوں پر بھی افطاری کر رہے ہیں اور افطاری کا اجتماع پہلے کی نسبت بڑا ہونے لگا ہے۔
پشاورکے بڑے طبی مرکز ڈبگری گارڈن میں علاج کی غرض سے مردان سے آنے والے راحت اللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ والد کو علاج کے لئے یہاں لائے ہیں۔ اخراجات بھی زیادہ ہیں اور علاج بھی مہنگا ہے۔ یہاں کافی لوگ ایسے ہیں جو اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ بازار میں کھانا بھی مہنگا ہے اور ایسے میں اگر کسی کی جانب سے افطاری مل جائے تو ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ ایک سہولت بن جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سستے ہوٹل میں کمرہ لیا ہوا ہے۔ جبکہ افطاری کے وقت ایک عجیب سا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پہلے دن مسلمان بھائیوں نے اپنے ساتھ افطار کیلیے دسترخوان پر بٹھا لیا جبکہ دوسرے دن سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد افطاری کا سامان لیکر یہاں پہنچے اور مریضوں کے ساتھ آنے والے تمام تیمار داروں کو لنچ بکس دیے۔ جس میں کھجوریں، چاول اور سبزی گوشت شامل تھا۔ مشروبات کی بوتلیں بھی تقسیم کی گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کام حکومت کو کرنا چاہیے کہ اسپتالوں میں کھانے وغیرہ کیلئے انتظامات کرے۔ لیکن اگر کوئی ذاتی طور پر یہ نیک کام کرے تو دوسروں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ یوں مالی مشکل کا سامنا کرنے والے لوگوں کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔