نواز طاہر :
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر انتخابی شیڈول جاری کردیا ہے، جس کے تحت چودہ مئی کو صوبائی اسمبلی کے الیکشن کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔ جبکہ وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ مسترد کردیا ہے اور اس کے نتیجے میں آئینی اختیارات رکھنے والے اداروں میں تنائو اور کشیدگی کا اندیشہ بڑھ رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ایمرجنسی کے نفاذ کی بازگشت بھی سنائی جانے لگی ہے اور اس ضمن میں آئندہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے اہم قرار دیئے جارہے ہیں۔ جبکہ بیشتر قانونی و آئینی ماہرین نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے عدلیہ، اداروں اور معاشرے میں تقسیم کا باعث قرار دیا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے آج بدھ کو اپنا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں الیکشن کے انعقاد اور عدالتی فیصلے کا جائزہ لے کر اس فیصلے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے پر بھی غور ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر عدلیہ کے فیصلے کوتسلیم نہیں کیا جاتا، تو اس کے خلاف ’’دفاعِ عدلیہ‘‘ تحریک چلائی جائے گی۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی طرف سے اپنے حامی وکلا کو سپریم کورٹ پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عدالتی کارروائی پُرامن رکھنے کیلئے زیر سماعت مقدمات میں پیش ہونے والے وکلا کے ماسوا، دیگر وکلا کا سپریم کورٹ میں داخلہ روک دیا تھا۔ یہ وکلا عدالت میں نہیں جا سکے تھے۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت اپنے حامی وکلا کے فلاپ شو سے سخت مایوس ہے۔ پی ٹی آئی اعلیٰ حلقوں میں اس بات پر غور جاری ہے کہ راولپنڈ ی، اسلام آباد ہی کے وکلا کی تعداد بارہ ہزار کے قریب ہے، تو وہاں سے ساٹھ سے ستر وکلا ہی کیوں جمع ہوئے؟ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان اس تین رکنی بنچ کے فیصلے کے تمام تناظر کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جبکہ اس فیصلے سے پہلے توقع کی جارہی تھی کہ عدلیہ کی تقسیم کا تاثر غلط ثابت کرنے کیلiے لارجر بنچ بنائے جانے کی جانب پیش رفت ہوسکتی ہے۔ ورنہ کوئی متنازع فیصلہ آنے سے اداروں میں تصادم کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ اور پھر فیصلہ آتے ہی وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ مسترد کردیا اور جن حالات کی نشاندہی آئینی و قانونی ماہرین کررہے تھے، معاملات اسی جانب جاتے نظر آرہے ہیں۔
اسلام آباد کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں ان بدلتے ہوئے حالات میں ایمرجنسی کے نفاذ کی بازگشت بھی سنائی دینے لگی ہے۔ البتہ اہم حکومتی جماعتوں، ن لیگ، جے یو آئی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی تصدیق نہیں کی جا رہی۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری عدالتی فیصلے سے پہلے ہی نشاندہی کرچکے تھے کہ حالات ملک میں ایمرجنسی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی حلقے ان کے اس بیان کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ قانونی و آئینی ماہرین کے مطابق آئین کے تحت حکومتی فیصلے کی روشنی میں ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے احکامات صدرِ مملکت نے جاری کرنے ہیں اور وہ بادی النظر میں پاکستان تحریکِ انصاف کی پالیسی کوترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس ضمن میں جب ’’امت‘‘ نے سینئر قانون دان شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ اگر وفاقی حکومت صدر کو ایڈوائس بھیجتی ہے اور صدر انکار کر دیتے ہیں تو کیا صورتحال پیدا ہوسکتی ہے؟ تو شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ ’’صدرِ مملکت پورے ملک کے صدر ہیں۔ ان کیلئے وفاقی کابینہ کی ایڈوائس کو اہمیت دینا اور اس پر عمل کرنا اہم ہے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور وفاقی کابینہ کی ایڈوائس پر عمل نہیں کرتے تو بھی کیا کرسکتے ہیں؟ ماسوائے اس کے کہ وہ ایڈوائس پر ایک محدود وقت یعنی پندرہ روز تک دستخط نہیں کریں گے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ اس کے بعد صدر کا یہ اختیار ختم ہوجائے گا اور صدر وفاقی کابینہ کا فیصلہ روکنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔‘‘
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدر ی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ نا مکمل، مبہم، متنازع اور ناقابلِ تحسین ہے۔ جس سے مزید بگاڑ پیدا ہوگا اور وکلا میں بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ تقسیم ہوگی۔‘‘ سابق جج اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین محمد رمضان چودھری نے مزید کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے متنازع فیصلہ دیا ہے۔ اچھا فیصلہ وہ ہوتا ہے جسے تمام فریق تسلیم کریں۔ مگر یہ تقسیم کا فیصلہ ہے اور عدلیہ کی تقسیم کا بھی فیصلہ ہے۔ یہ کوئی چوری اور مارکٹائی کا مقدمہ نہیں کہ عدالت کے فیصلے پر فریق خوش اور ناخوش ہوں۔ یہ آئینی و قانونی اور سیاسی مقدمے کا فیصلہ ہے۔ یا تو عدالت کو سیاسی فیصلے کرنا نہیں چاہئیں اور اگر کرنے ہیں تو ایسے کرنا چاہئیں جو سب کو تسلیم ہوں۔ ایسا فیصلہ نہیں جو سیاسی جماعتوں، معاشرے ، اداروں اور افراد کو تقسیم کردے۔ ایسے فیصلے قابلِ تحسین نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے بارے میں تو فیصلے سناتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن نوے روز میں ہونا چاہئیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کی اسمبلی کے الیکشن کیلئے نوے روز کا اطلاق نہیں ہوتا، وہاں کیوں خاموشی ہے؟ اس فیصلے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب الیکشن کمیشن کا کیا کام باقی رہ گیا ہے؟ شیڈول بھی عدلیہ نے دے دیا، فنڈز بھی۔ اور یہ بھی کہتے ہیںکہ ہر معاملے کی رپورٹ بھی پیش کرتے رہیں، تو پھر الیکشن کمیشن کا اب کام کیا ہے ؟ اس فیصلے سے عدلیہ کی تقسیم واضح ہوچکی۔ اداروں کی تقسیم واضح ہوچکی۔ معاشرہ تقسیم ہوگیا اور ابھی مزید بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں رمضان چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’وفاقی حکومت کو تو عدلیہ سمجھتی ہی کچھ نہیں۔ اب جو کچھ ممکنہ طور پر دکھائی دے رہا ہے اس سے انارکی مزید بڑھے گی۔ صرف ایمرجنسی کی بات ہی نہیں، کئی اور طرح کے بگاڑ بھی ہوسکتے ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہوگا کہ ایمرجنسی لگنے کی صورت میں وکلا برادری ماضی کی روشن روایات کے برعکس منقسم کردار ادا کرے گی۔ بار کی روایات رہی ہیں کہ اگر ایمر جنسی نافذ ہوجائے تو پھر باقی امور پسِ پشت ڈال کر ایمر جنسی کی مخالفت کرتی ہے۔ لیکن اس بار صورتحال یکسر مختلف ہے اور بار میں بڑی واضح تقسیم دکھائی دے گی۔‘‘
جب ان سے استفسار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اسے بار ایسوسی ایشنز کی واضح اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ تو رمضان چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’فیصلے سے ایک روز پہلے اس کا عکس نظر آگیا تھا جب پورے پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ملا کر بھی تین سو وکلا اکٹھے نہیں ہوئے تھے۔ ہر بڑے شہر سے پندرہ، بیس وکلا ہی پی ٹی آئی کی قیادت کی اپیل پر اسلام آباد جمع ہوسکے تھے۔‘‘