امت رپورٹ :
حکومتی فیصلے کے بعد پہلا امتحان وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکا ہوگا۔ اس امتحان میں صرف تین روز باقی ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت پیرتک انہوں نے الیکشن کمیشن کو اکیس ارب روپے فراہم کرنے ہیں۔ تاہم اب تک وزیر خزانہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس نہیں بلایا ہے۔ جس نے اس رقم کی منظوری دینی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے چودہ مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ جس میں کہا گیا کہ وزیراعظم اور کابینہ تین رکنی بنچ کے فیصلے پر عمل نہ کریں۔
قومی اسمبلی کی اس قرارداد کے بعد وفاقی کابینہ کے جس رکن کو اس آزمائش میں سب سے پہلے گزرنا ہے۔ وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہیں۔ پنجاب میں چودہ مئی کو الیکشن کرانے کیلئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے وفاقی حکومت کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ ہر حال میں پیر دس اپریل تک الیکشن کمیشن پاکستان کو اکیس ارب روپے فراہم کرے۔ جس پر الیکشن کمیشن اگلے روز گیارہ اپریل کو سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائے گا کہ رقم فراہم کر دی گئی ہے یا نہیں۔ رپورٹ بنچ میں شامل جج صاحبان کو چیمبر میں پیش کی جائے گی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر رقم مقررہ تاریخ پر ادا نہ کی گئی تو بنچ مناسب احکامات جاری کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم وزارت خزانہ نے جاری کرنی ہے۔ فنڈز جاری کرنے کے لئے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ تاہم وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق عدالتی احکامات کو تین روز گزرنے کے بعد بھی اب تک نہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا اور نہ ہی مذکورہ فنڈز کے اجرا کے حوالے سے وزارت خزانہ میں کوئی سرگرمی دکھائی دے رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی زیر صدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کا آخری اجلاس تیس مارچ کو ہوا تھا۔ جس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے تین ائیر پورٹس کی آؤٹ سورسنگ سے متعلق وزارت ہوا بازی کی سمری پر غور کیا تھا۔ اس کے بعد سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا ۔ البتہ بدھ کے روز وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے نیشنل ٹیکس کونسل کے چھٹے اجلاس کی صدارت کی اور سروس رولز کی فراہمی کے مسودے سے متعلق این ٹی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران اسحاق ڈار کا چہرہ اترا ہوا تھا اور وہ کافی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ اس پریشانی کا سبب یقیناً یہی ہے کہ عدالتی احکامات کا پہلا نزلہ ان پر ہی گرتا دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں دس اپریل تک ہر حال میں اکیس ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے کا پابند کیا گیا ہے۔ اب قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔ جس میں وزیراعظم اور کابینہ ارکان کو فیصلے پر عمل نہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ ایسے میں وزیر خزانہ مقررہ تاریخ تک الیکشن کمیشن کو فنڈز کا اجرا نہیں کرتے تو وہ کابینہ کے پہلے رکن ہوں گے۔ جنہیں اس حکم عدولی پر عدالت کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے پاس پھر بھی ابھی دس دن کا وقت ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت انتخابات کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن کو پاک فوج، رینجرز اور فرنٹیر کانسٹیبلری سمیت تمام فور سز کی تعیناتی سے متعلق جامع پلان سترہ اپریل تک دینے کی پابند ہے۔ تاہم پہلا مرحلہ فنڈز کے اجرا کا ہے جو وزارت خزانہ نے دینے ہیں۔ لہٰذا دس اپریل تک واضح ہو جائے گا کہ اتحادی حکومت عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کا قطعی فیصلہ کر چکی ہے یا یہ محض سیاسی بیان اور عدالت پر دبائو ڈالنے کا حربہ ہے۔ اگر مقررہ تاریخ کو وزارت خزانہ کی جانب سے فنڈز جاری کردیئے گئے تو یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے سے متعلق قرارداد محض دبائو ڈالنے کے لیے منظور کی گئی ہے۔ جبکہ فنڈزکے معاملے کو لٹکانا اس بات کی نشاہدہی ہوگی کہ اتحادی حکومت نے قومی اسمبلی کی قرارداد کے تحت عدالتی فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے۔
اسحاق ڈار آج جمعہ یا ہفتہ کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلاکر فنڈز کی منظوری لے لیتے ہیں تو پیر کے روز الیکشن کمیشن کو رقم جاری کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ دو دن بھی گزر گئے تو پھر مقررہ تاریخ پر فنڈز کا اجرا مشکل ہوگا۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر خزانہ اکیس ارب کی مجموعی رقم کے بجائے پہلی قسط کے طور پر اس رقم کا ایک حصہ فراہم کردیں کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کم از کم یہ رعایت دی ہے۔
جمعرات کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مصروف ترین دن گزارا۔ انہوں نے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور کے ساتھ ملاقات کی اور حج اسکیم دو ہزار تئیس سے متعلق پالیسی بیان جاری کیا۔ اسی طرح وزیرخزانہ نے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور دیامر بھاشا پروجیکٹ، پاور جنریشن فیسیلٹیز اور سڑکوں کی تعمیر سمیت کئی ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی۔
جمعرات کے روز ہی وزیر خزانہ نے امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی سفیر سے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے متعلق تعاون کی درخواست کی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے گورنر خیبرپختونخواہ حاجی غلام علی نے بھی ملاقات کی اور صوبے کے مالیاتی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ تاہم ان تمام مصروفیات میں الیکشن کمیشن کو فنڈز کے اجرا سے متعلق کوئی سرگرمی نہیں دیکھنے میں آئی۔ ذرائع کے بقول جمعرات کے روز وزیر خزانہ نے جتنے اجلاس اور ملاقاتیں کیں۔ ان مواقع پر وہ چند روز پہلے کے مقابلے میں کافی پراعتماد دکھائی دیئے۔ شاید اس کی وجہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد ہے۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ گزشتہ برس نومبر کے اواخر میں ہونے والے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں عام انتخابات کے انعقاد کے انتظامات میں مدد کے لیے الیکشن کمیشن پاکستان کو پندرہ ارب روپے کی منظوری دی گئی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ منظور شدہ پندرہ ارب روپے میں سے پانچ ارب روپے الیکشن کمیشن کو جاری کئے جا چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن پاکستان نے ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے سینتالیس ارب روپے سے زائد کی رقم جاری کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔