رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والوں کی درگت بھی بنائی گئی، فائل فوٹو
 رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والوں کی درگت بھی بنائی گئی، فائل فوٹو

نشئی سرکاری املاک کے دشمن بن گئے

اقبال اعوان :
کراچی میں نشئی بے قابو ہوگئے۔ پیٹ کی آگ بجھانے اور نشہ پورا کرنے کے چکر میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے لگے۔ گھروں، سڑکوں، گلی کوچوں، بازاروں میں چوری کی وارداتیں بڑھ گئیں۔ شاہراہوں، سڑکوں پر سرکاری بس اسٹاپ، فٹ پاتھ کے جنگلے، اوورہیڈ برج، میدانوں، پارکوں کی گرل، گیٹ، پلوں کے اوپر لگے لوہے کے نٹ بولٹ، چادریں چوری کی جانے لگیں۔ پولیس خاموش تماشائی ہے۔ کراچی کے شہریوں نے ڈکیتوں کے ساتھ ساتھ ہیروئنچیوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر درگت بنانا شروع کر دی۔

واضح رہے کہ ملک بھر میں سرکاری اداروں کے مطابق نشہ کرنے والوں کی تعداد 70 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ ان میں 15 سے 20 لاکھ صرف کراچی میں ہیں۔ ان میں اکثریت ہیروئن کے عادی یا آئس کے عادی افراد کی ہے جو نشہ کرنے سے قبل بے چین پریشان ادھر ادھر پھرتے نظر آتے ہیں اور نشہ کرنے کے پیسے ملنے کے بعد نشہ حاصل کرتے ہیں اور کسی جگہ لیٹ جاتے ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش تو کوئی نہیں ہوتا ہے۔

بعض کے گھر والے ان کو خرچہ دے دیتے ہیں یا لوگ مدد کر دیتے تھے۔ اب بے روزگاری، مہنگائی کے بعد جہاں لوگ اپنے اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی بمشکل کما سکتے ہیں وہ ان نشہ کرنے والوں کی کیا مدد کریں گے۔ فلاحی اداروں کے دستر خوان اکثریتی بند ہو چکے ہیں اور فلاحی ادارے ان کی کوئی مدد نہیں کرتے ہیں۔ دوسری جانب ہیروئن، آئس اور دیگر منشیات کی قیمت ایک سال کے دوران تین گنا بڑھ چکی ہے۔ ہیروئن کا ٹوکن 200 سے 700 تک جا پہنچا ہے۔ اس لیے نشہ کرنے والے شہر میں گھومتے ہیں۔ پہلے نشہ کرنے والے کاغذ، پلاسٹک، شیڈ، گتہ جمع کر کے کباڑیوں کو فروخت کرتے تھے۔

کراچی کے کباڑی جو پولیس کے لیے بالخصوص مقامی تھانوں کی حدود میں واقع کباڑی کی دکانیں پولیس کے لیے سونے کی چڑیا ہیں اور زیادہ بھتہ ادا کرتے ہیں۔ اس لیے چوری کا مال بھی بہ آسانی خریدتے ہیں۔ اب دیگر کباڑ سے لوہے کا سامان مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ اس لیے نشہ کرنے والے سڑکوں پر لگے جنگلے اکھاڑتے نظر آتے ہیں۔ ان کو ریلیف مل جاتا ہے کہ ہیروئنچی ہے ماریں گے تو کیا ہوگا، اس نے باز نہیں آنا ہے۔

ریڈ بس کے بس اسٹاپ سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پر بنائے گئے تھے۔ اس کے جنگلے لوہے کی سیٹیں تک نکال کر لے گئے۔ سرکاری اسکول، پارکوں، گرائونڈ، اسٹیڈیم، سرکاری عمارتوں کے اردگرد لوہے کی اشیا نکال لی جاتی ہیں۔ اوورہیڈ برج ہو یا پل ہوں، لوہے کی پلیٹیں، چادریں، نٹ بولٹس اور دیگر سامان نکال لیا جاتا ہے۔ سولجر بازار، جامع کلاتھ، لیاقت آباد اور دیگر جگہوں کے اوورہیڈ برج خستہ حال ہو چکے ہیں اور رات تو کیا دن دہاڑے ہیروئنچی کام میں لگے نظر آتے ہیں اور کباڑی کی دکان کا رخ کرتے ہیں۔ کباڑی ان سے لوہا سستا خریدتے ہیں کہ چوری کا ہے اس طرح کباڑیوں کو فائدہ ملتا ہے۔

گٹروں کے ڈھکن چوری کررہے ہیں، اس کو توڑ کر لوہے کی سلاخیں نکال لیتے ہیں۔ پارکوں، میدانوں، اسٹیڈیم کے گیٹ اور جنگلے و دیگر سامان نکال لیا جاتا ہے۔ سلطان آباد کا پارک ہو یا شاہ فیصل کالونی نمبر 3 کا پارک ہو، سب کا حال خراب کر دیا ہے۔ سرکاری لاکھوں کی املاک کو توڑ کر کوڑیوں کے مول فروخت کرتے ہیں۔ اگر یہ مختلف روپ دھار کر زخمی، معذور، نابینا بن کر بھیک مانگیں تب بھی لوگ ان کو مارتے ہیں۔ اس طرح شہر میں کچی آبادیوں کے اندر تو کیا متوسط طبقے یا پوش علاقوں کے اندر بھی کارروائی کر جاتے ہیں۔ سڑکوںِ گلیوں میں کھڑی گاڑیوں پر زور آزمائی کرتے ہیں بیٹری، لوہے کا سامان جو مل جائے دکانوں کے بند ہونے کے بعد راتوں کو سامنے موجود اشیا چوری کر لی جاتی ہیں۔ جبکہ گیس میٹر تک چوری کیے جارہے ہیں۔

نارتھ کراچی میں گیس میٹر کھولتے ہوئے ایک ہیروئنچی کو پکڑ لیا گیا اور گیس میٹر پائپ سمیت ہیروئنچی کے گلے میں ڈال کر گھمایا گیا۔ شہریوں کا اس حوالے سے شدید ردعمل ہے کہ پولیس ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی کہ تھانے میں ان کو چھڑانے کوئی نہیں آئے گا کہ ڈیل کریں گے اور لاک اپ میں نشہ نہ ملنے پر مرگیا تو مسئلہ درپیش ہو گا۔ شہر میں بے روزگاری، مہنگائی کے بعد معاشی صورت حال انتہائی خراب ہو چکی ہے اور نوجوان پریشان ہو کر نشے میں حل تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ سرکاری املاک کی چوری بڑھنے پر شہر کی خوب صورتی متاثر ہورہی ہے اور مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ شہری ڈاکو لٹیروں کے بعد ان سے پریشان ہیں۔ اگر پولیس نشئیوں کیخلاف نمائشی آپریشن کرتی ہے تو ان کو پکڑ کر ایدھی ہوم سپرہائی وے بھجوایا جاتا ہے۔ تاہم ایسا بہت کم ہورہا ہے۔ جگہ جگہ ہیروئنچی نشہ کرتے یا سوتے نظر آتے ہیں۔