نواز طاہر :
حکومتی اتحاد کی اہم جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کو اپوزیشن سے مذاکرات کے مشورے کو سیاسی حلقوں نے خوش آئند اور مثبت عمل قرار دیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات قابل عمل بنانے کے لیے کچھ شرائط اہم بھی ہو سکتی ہیں اور پی ڈی ایم میں بھی اس پر اتفاق رائے ہونا چاہیے کہ مذاکرات کس نکتے پر قابل عمل بنائے جا سکتے ہیں؟ جبکہ جن سے مذاکرات ہونے ہیں، وہ کسی لمحے بھی یوٹرن لے جاتے ہیں اور ان کا ٹریک ریکارڈ قابل اعتبار نہیں۔ اس کے برعکس اپوزیشن کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے محض پوائنٹ اسکورنگ کی ہے اور سیاسی بیان داغا ہے۔ اگر مذاکرات کا ایجنڈا بھی پیش کیا جاتا تو اس پر غور ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ دستور پاکستان مجریہ 1973ء کی تاسیس کے اجلاس میں پی پی پی لیڈر آصف علی زرداری نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کے ساتھ والی نشست پر کھڑے ہو کر انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپوزیشن سے مذاکرات کریں اور اس کے لیے شرائط بھی رکھیں۔ تاکہ سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کی جانب اگلا قدم اٹھایا جائے۔ اس مشورے پر یہ سطور لکھے جانے تک اپوزیشن جماعت، تحریک انصاف کی طرف سے کوئی اضح جواب نہیں آیا تھا۔ اتحادی حکومت کی جماعتیں مسلم لیگ ’ن‘ اور اے این پی اس تجویز کو تو مثبت قرار دیتی ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں پی ٹی آئی صرف اور صرف ایک ضدی انسان کے گرد گھومتی ہے۔ جس کا کسی لمحے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کب اس سے منکر ہو جائے۔
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما عبدالقادر شاہین کا اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے یوم آئین پر آئین کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کی بات کی ہے۔ جو پارلیمان کی اصل روح اور مقصد ہے۔ اس سے پارٹی کا جمہوری عمل آگے بڑھانے کے لیے رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر جمہوریت، آئین اور پارلیمان کی تحسین ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے جو بات کی ہے، وہ ملکی مفاد میں اور مسائل کا حل ہے۔ لیکن اصل معاملہ اپوزیشن کا ہے۔ وہ بھی اس کا اسی درد دل سے مثبت جواب دے۔ ہمیں امید تو اچھی ہی رکھنا چاہیے۔ اگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ملک و قوم سے مخلص ہیں تو وہ مذاکرات کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ کریں۔
اے این پی کے رہنما احسان وائیں کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری اتحادی حکومت کی اہم جماعت کے لیڈر ہیں۔ ان کی آواز میں وزن ہے وہ کھلے دل کا مظاہرہ تو کر رہے ہیں۔ لیکن میری ذاتی رائے میں تو عمران خان سے مذاکرات کی بات کرنے کی کوئی ’’تک‘‘ ہی نہیں۔ مگر جمہوریت نام ہی ڈائیلاگ کا ہے، تو میں آصف زرداری کی نیت پر شک نہیں کرتا۔ البتہ جس سے مذاکرات کی بات کی جارہی ہے، وہ قابل اعتبار نہیں رہا۔ وہ ایک ہٹ دھرم اور ضدی انسان ثابت ہوا ہے۔ ایسے لوگوں سے مذاکرات سے کیا حاصل؟۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی سردار محسن خان لغاری کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کا مشورہ خوش آئند ہے، اسے برا نہیں کہا جا سکتا۔ یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا آصف علی زرداری نے جو مشورہ دیا ہے، کیا یہ صرف ان کی پارٹی پالیسی ہے؟ اس سلسلے پر انہوں نے پہلے سے اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیا ہے یا آئین کی تاسیس پر جوش خطابت میں جمہوری گفتگو کرتے ہوئے مذاکرات کی بات کی ہے؟ انہوں نے یہ مشورہ تو وزیراعظم کو دیا ہے۔ اس کا جواب وزیراعظم کو ہی دینا چاہیے۔
واضح رہے کہ سردار محسن لغاری نے اپنی جماعت کی احتجاج پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے دیگر اپوزیشن ارکان کے ساتھ اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا اور وہ ایوان میں موجود رہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ احتجاج نہ کرنے پر پارٹی نے ان سے بازپرس نہیں کی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ بازپرس کس بات کی؟ میرا تو ہمیشہ نکتہ نظر یہ رہا ہے کہ ایوان سے بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ جو بات بھی کی جائے ایوان کے اندر ہی کی جائے، جو ریکارڈ کا حصہ بنے اور تاریخ میں زندہ رہے۔ بائیکاٹ کر کے موقف کا اظہار تاریخ میں گم کرنے والی بات ہے۔