نواز طاہر :
صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران حکومتوں کے زیر نگرانی مقررہ آئینی مدت میں الیکشن نہ ہونے کے باعث ان نگران حکومتوں کے مستقبل پر اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے سوال اٹھا دیا ہے اور گلے چار روز بعد ان کی حیثیت کو غیر آئینی قرار دیدیا ہے۔ لیکن نگران حکومتوں کے ختم ہوجانے کے کوئی آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔ جبکہ آئینی و قانونی اور سیاسی مبصرین پی ٹی آئی کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
واضح رہے کہ تحریکِ انصاف نے جنوری میں دونوں صوبوں پنجاب اور کے پی میں اپنی حکومتیں آئین کے آرٹیکل ایک سو بارہ کے استعمال سے ختم کر دی تھیں اور آئین کے تحت شفاف الیکشن کرانے کیلیے نگران حکومتیں بنائی گئی تھیں۔ جن کے قیام کے ساتھ ہی پی ٹی آئی نے ان نگران حکومتوں پر تنقید شروع کردی۔
آئین میں دی گئی مدت کے دوران الیکشن نہیں ہوسکے اور یہ معاملہ ابھی تک عدلیہ، حکومت اور اپوزیشن میں تنازع کا سبب ہے۔ اسی دوران پی ٹی آئی نے یہ سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ نگران حکومتیں تین ماہ کیلئے بنائی گئی تھیں۔ ان کی مدت اگلے چار روز یعنی بائیس اپریل کو ختم ہوجائے گی اور اس کے بعد اگر یہ حکومتیں برقرار رہتی ہیں تو ان کا وجود غیر آئینی اور اٹھائے جانے والے اقدامات غیر قانونی ہوں گے۔ جنہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
اس ضمن میں پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ عیدالفطر کے بعد ان نگران حکومتوں کے وجود کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ اس کیلئے حکمتِ عملی بھی بنائی گئی ہے۔ پہلے یہ معاملہ عدالتِ عالیہ لاہور میں اٹھایا جانا تھا۔ لیکن اب اسے براہِ راست سپریم کورٹ میں اٹھائے جانے کی تصدیق اسی جماعت کے رہنما فواد حسین چودھری نے کردی ہے۔ جنہوں نے بتایا ہے کہ دونوں نگران حکومتیں ختم کرانے کیلئے صدارتی اختیار کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں صدر مملکت کو مراسلہ بھی ارسال کردیا گیا ہے کہ دونوں صوبوں کی نگران حکومتیں ختم کروائی جائیں۔ اور اس مقصد کیلئے صدرِ مملکت اپنا آئینی اختیار استعمال کرکے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوائیں۔
ادھر پنجاب کی نگران حکومت میں شامل کچھ اراکین کا کہنا ہے کہ اگلے تین چار روز کے اندر نگران حکومت ختم ہونے کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تاثر ہی نہیں پایا جاتا۔ نگران کابینہ کے تمام اراکین اپنی آئینی ذمہ داری بطریقِ احسن ادا کر رہے ہیں اور اس ادائیگی کے بعد کسی وقت بھی رخصت ہونے کیلئے تیار ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کابینہ میں رہنے کا لالچ نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے بعد اقتدار کی منتقلی تک ان کا آئینی وجود ہے۔
نگران حکومت کی بائیس اپریل کو مدت ختم ہونے کے حوالے سے سوال پر سابق جج اور بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری کا کہنا ہے کہ آئین میں نگران حکومت کا دائرہ کار اور مدت واضح طور پر درج ہے اور اس کا تعین مختلف عدالتی فیصلوں میں بھی کیا جاچکا ہے۔ جس کے تحت نگران حکومت نے روزمرہ امور انجام دینا ہیں اور شفاف الیکشن کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی سہولت کاری کرنی ہے۔ نگران حکومت نے اس وقت تک برقرار رہنا ہے۔
جب تک انتخابی عمل مکمل نہیں ہوتا اور اقتدار نئی منتخب حکومت کو منتقل نہیں ہوتا۔ موجودہ صورتحال میں جیسا کہ سپریم کورٹ کا الیکشن کی ترمیمی شیڈول کا معاملہ زیر بحث ہے اور ترمیمی شیڈول کے مطابق الیکشن اگلے مہینے مئی میں ہونا طے کیے گئے ہیں، تو نگران حکومت اس سے پہلے کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ یہ الیکشن اگر اسی شیڈول کے مطابق ہوتے ہیں تو کیا بائیس اپریل کو نئی نگران حکومت بنانا پڑے گی؟ ایسا ہرگز نہیں۔ یہ تصور درست نہیں۔ اسی نگران حکومت نے ہی الیکشن کرانے اور نئی منتخب حکومت کو معاملات منتقل کرنے ہیں۔ اس نگران حکومت کا مینڈیٹ اسی وقت تک کا ہے۔
اس سے پہلے اسے ختم کرنے کا خیال ایک خواہش تو ہوسکتی ہے۔ آئینی و قانونی طور پر یہ درست خیال نہیں۔ اسی کی تائید کرتے ہوئے سینئر قانون دان سہیل ڈار کا کہنا ہے کہ یہ قومی المیہ ہے کہ یہاں ہر معاملے کو خواہش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ آئین اور قانون خواہشوں کی تکمیل نہیں۔ خواہش کے مطابق قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس پر عملداری اسی صورت میں ممکن ہے جب قابلِ عمل قانون سازی ہوگی۔ پاکستان میں آئین و قانون کے ساتھ قابلِ تحسین سلوک نہیں ہورہا۔ جہاں تک نگران حکومت کی آئینی مدت کا تعلق ہے تو وہ متعین شدہ ہے۔ اس نے انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کی انتظامی معاونت کے ساتھ ساتھ اپنے روزمرہ کے امور نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد حلف اٹھانے تک جاری رکھنے ہیں۔
اس سے پہلے نگران وزیراعلیٰ ہٹانے کا دستور میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ آئین میں نگران حکومت بنانے کیلئے وزیر اعلیٰ کی سلیکشن کا طریقِ کار تو واضح اور غیر مبہم درج ہے۔ لیکن کسی جگہ نگران وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا ذکر نہیں۔ صرف ذمہ داریوں اور اقتدار کی منتقلی تک کی مدت کا تعین ہے۔ ایام کا تو ذکر ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قانونی حلقوں کے مطابق عید کے فوری بعد پٹیشن بھی دائر کیے جانے کا امکان ہے۔ جس میں نگران حکومت کو کام سے روکنے کی استدعا کی جائے گی۔ ان ذرائع کے مطابق یہ پٹیشن ثمر آور ہونے کا امکان نہیں۔ لیکن اس کا ایک پریشر ضرور بنے گا۔