کراچی کا محکمہ فائر بریگیڈ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا

محمد نعمان اشرف :
کراچی کا محکمہ فائر بریگیڈ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ محکمہ کے پاس آگ بجھانے کے بنیادی آلات ہی موجود نہیں۔ کیمکیل گلف، فیس ماسک، ٹارچ، لیدر گلف، ربر ہینڈ گلف، گاگلز اور فائر مین ہیلمٹ سمیت دیگر آلات سے محروم فائر فائٹرز جان ہتھیلی پر رکھ کر آگ بجھاتے ہیں۔

گزشتہ برس 2022ء میں 2 ہزار 120 آتشزدگی کے واقعات میں متعدد فائر فائٹرز آگ بجھاتے ہوئے زخمی ہوئے۔ شہر میں محض 20 گاڑیاں اور 2 اسنار کل موجود ہیں۔ 3 اسنارکل معمولی خرابی پر سہراب گوٹھ میں کھڑی ہیں۔ بڑی عمارت میں آگ لگنے پر کے ایم سی کے پاس شہریوں کو ریسکیو کرنے کیلئے ایک بھی گاڑی موجود نہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کی 8 بڑی باؤزر گاڑیاں کھڑی کھڑی ناکارہ ہوگئیں۔ محکمہ فائر بریگیڈ کی ہیلپ لائن اور وائرلس سسٹم بھی برسوں سے ناکارہ ہے۔ جس کی وجہ سے آگ لگنے کی بروقت اطلاع نہیں دی جاتی ہے۔ وسیم اختر کے دور میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی۔ جس کے باعث محکمہ فائر بریگیڈ مکمل تباہ ہوگیا۔ 30 فائر اسٹیشنز ہونے کے باوجود صرف 15 فائر اسٹیشن تین شفٹوں میں کام کر رہے ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کی عدم دلچسپی کے باعث محکمہ فائر بریگیڈ تباہی کے دہانے پہنچ گیا ہے۔ شہر میں آتشزدگی کے واقعات بڑھنے کے باوجود محکمہ فائر بریگیڈ پر کسی قسم کی توجہ نہیں دی جارہی۔ محکمہ اس وقت تمام سہولیات سے محروم ہے۔ ساڑھے تین کروڑ والے شہر میں آگ بجھانے کیلئے محض 20 گاڑیاں اور 2 اسنار کل ہیں۔ حادثے کے بعد لوگوں کو ریسکیو کرنے کیلئے محکمہ کے پاس ایک بھی گاڑی موجود نہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ محکمہ فائر بریگیڈ میں وفاق کی دی گئی گاڑیاں ہی کام کررہی ہیں۔ جبکہ کے ایم سی کے پاس اپنی کوئی ایک بھی گاڑی موجود نہیں۔ شہر میں آتشزدگی کیس رپورٹ ہونے پر بڑے اسنارکل کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تاہم کے ایم سی کے پاس محض 2 اسنارکل ہیں۔ جبکہ 3 اسنارکل معمولی خرابی کے باعث کھڑی کھڑی ناکارہ ہوگئیں۔ کروڑوں روپے مالیت کی اسنارکلز کیلئے محکمہ نے ایڈمنسٹریٹر کراچی سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو متعدد درخواستیں دیں۔ لیکن کسی نے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے۔

معلوم ہوا ہے کہ 2022ء میں آتشزدگی کے 2 ہزار 120 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جس میں سب سے بڑا حادثہ جیل روڈ پر واقعہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں آتشزدگی کا تھا۔ سب سے زیادہ آتشزدگی کے واقعات سینٹرل فائر اسٹیشن میں 167 ریکارڈ کیے گئے۔ صدر فائر اسٹیشن میں 156 آتشزدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ صدر فائر اسٹیشن کی حدود میں سب سے خطرناک آتشزدگی کوآپریٹو مارکیٹ میں ہوئی تھی۔ جس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ ناظم آباد فائر اسٹیشن میں 164 آتشزدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

لیاری فائر اسٹیشن میں 104 کیس رپورٹ ہوئے۔ سائٹ فائر اسٹیشن میں 132۔ کورنگی فائر اسٹیشن میں 72۔ لانڈھی فائر اسٹیشن میں 77۔ گلشن مصطفیٰ فائر اسٹیشن میں 148۔ اورنگی فائر اسٹیشن میں 148۔ شاہ فیصل فائر اسٹیشن میں 72۔ منظور کالونی فائر اسٹیشن میں 138۔ نارتھ کراچی فائر اسٹیشن 62۔ بلدیہ ٹائون فائر اسٹیشن 29۔ ای آر سی ہاکس بے میں 4۔ نیو ٹرک اڈا فائر اسٹیشن پر 23۔ بولٹن مارکیٹ فائر اسٹیشن میں 66۔ گلستان جوہر فائر اسٹیشن میں 113۔ سوک سینٹر فائر اسٹیشن پر 58۔ ملیر فائر اسٹیشن 55۔ گلشن اقبال فائر اسٹیشن 118۔ گلشن معمار فائر اسٹیشن پر 7۔ سپرہائی وے فائر اسٹیشن پر 1۔ سائٹ سپر ہائی وے پر 48۔ سائٹ ایسوسی ایشن فائر اسٹیشن پر 14۔ کاٹھی کورنگی فائر اسٹیشن 69۔ نیو کراچی کاٹھی 81۔ ای پی فائر اسٹیشن میں 55 اور لاٹھی ایسوسی ایشن فائر اسٹیشن میں 14 آتشزدگی کے کیس رپورٹ ہوئے۔

مذکورہ آتشزدگی کے واقعات میں آگ بجھاتے ہوئے متعدد فائر بریگیڈ کے اہلکار زخمی ہوئے۔ کچھ فائر فائٹرز کے پاؤں اور ہاتھ کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں۔ مذکورہ ملازمین آلات نہ ہونے کا شکوہ اپنے اسٹیشن افسر سے کرتے رہے۔ لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ کثیر المنزلہ میں آتشزدگی پر وہاں ریسکیو گاڑی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کے ایم سی کے پاس ایک بھی ریسکیو گاڑی موجود نہیں۔ برسوں پہلے جاپان کی جانب سے کے ایم سی کو ایک ریسکیو گاڑی فراہم کی گئی تھی۔ جو عدم توجہی پر خراب ہوگئی۔

ذرائع نے بتایا کہ محکمہ فائر بریگیڈ میں آگ بجھانے کیلئے صرف 2 باؤزر گاڑیاں ہیں۔ جبکہ بڑی باؤزر گاڑیوں کیلئے 8 برس سے کے ایم سی کو ڈرائیور ہی نہیں ملا۔ جس کے باعث بڑی باؤزر گاڑیاں کھڑی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ چھوٹی باؤزر گاڑی میں 14 سو گیلن پانی آتا ہے۔ جبکہ بڑی باؤزر گاڑی میں 44 سو گیلن پانی آتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آتشزدگی کے مقام پر اگر بڑی باؤزر گاڑی پہنچ جائے تو آگ کی شدت پر فوری قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن شہر میں آتشزدگی کے واقعات بڑھنے کے باوجود بڑی باؤزر گاڑیاں نہیں نکالی جاسکیں اور نہ ان کیلئے ڈرائیور کا انتظام کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے فائر بریگیڈ کی ہیلپ لائن بند پڑی ہے۔ 16 ہیلپ لائن بند ہونے سے شہری آگ کی بروقت اطلاع دینے سے محروم ہیں۔ اکثر و بیشتر فائر بریگیڈ حکام متاثرہ مقام پر اس وقت پہنچتے ہیں جب آگ کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔ ہیلپ لائن بند ہونے کے ساتھ ساتھ محکمہ فائر بریگیڈ میں وائرلس سسٹم بھی ختم ہوگیا ہے۔ فائر بریگیڈ کی کسی بھی گاڑی یا فائر اسٹیشن میں وائرلس سسٹم موجود نہیں ہے۔ آگ کی اطلاع فائر اسٹیشنز پر ٹیلی فونز کے ذریعے دی جاتی ہے۔ جبکہ گاڑی میں وائر لس سسٹم نصب نہ ہونے کی وجہ سے ڈرائیور متاثرہ مقام پر تاخیر سے پہنچ پاتے ہیں یا اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ شہر میں 30 فائر اسٹیشنز موجود ہیں۔ لیکن عملہ نہ ہونے کی وجہ سے محض 15 فائر اسٹیشنز فعال ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کورنگی فائر اسٹیشن پر عملہ صرف صبح کی شفٹ میں کام کرتا ہے۔ جبکہ دوپہر اور رات کے اوقات مذکورہ فائر اسٹیشن بند ہوجاتا ہے۔ نارتھ کراچی، گلشن معمار، سپر ہائی وے اور بلدیہ ٹاون فائر اسٹیشنز پر بھی یہی صورتحال ہے۔ ٹرک اڈا فائر اسٹیشن، کیٹل کالونی فائر اسٹیشن، سائٹ ایسوسی ایشن فائر اسٹیشن، فیڈرل بی ایریا، بن قاسم فائر اسٹیشن اکثر و بیشتر عملہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوجاتا ہے۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں آتشزدگی کے خوفناک واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ کچھ ماہ قبل شیر شاہ کباڑی مارکیٹ میں خوفناک آتشزدگی سے 50 سے زائد دکانیں جل کر خاکستر ہوگئی تھیں۔

دکانداروں کا کہنا تھا کہ فائر بریگیڈ کی ایک گاڑی آگ بجھانے کیلئے آئی۔ جبکہ دوسری گاڑی کیلئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ جس کے باعث آگ نے پوری مارکیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ہر اسٹیشن پر 2 گاڑیاں کھڑی کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ جن کے ساتھ 4 فائر مین، ایک حولدار، ڈرائیور اور لیڈنگ مین کو بھی تعینات کرنے کا کہا گیا۔ لیکن ایسا کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ فائر اسٹیشنز پر صرف ڈرائیور یا پھر ایک فائر مین موجود ہوتا ہے۔ آگ لگنے کی اطلاع موصول ہونے پر ہی فائر اسٹیشن پر عملہ کام کرنے آتا ہے۔ دیکھ بھال کا نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں ملازمین و افسران گھر میں بیٹھ کر آرام کررہے ہیں۔ کسی بھی فائر اسٹیشن پر آج تک سروے نہیں کیا گیا کہ آیا وہاں عملہ موجود ہے بھی یا نہیں۔ آگ بجھانے کیلیے فائر بریگیڈ عملے کو کیمکیل گلف، فیس ماسک، ٹارچ، لیدر گلف، ربر ہینڈ گلف، گوگلز اور فائر مین ہیلمٹ سمیت دیگر چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

جبکہ مذکورہ آلات گزشتہ کئی برسوں سے محکمہ کو فراہم ہی نہیں کیے گئے۔ آگ بجھانے کیلئے فائر بریگیڈ کا عملہ اکثر سہولیات نہ ہونے کا شکوہ کرتا ہے۔ لیکن ان کے پاس آگ بجھاتے وقت پہننے والے جوتے بھی موجود نہیں ہیں۔ جس کے باعث فائر فائٹر زخمی ہوجاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ فائر بریگیڈ کا محکمہ سب سے زیادہ سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں تباہ ہوا۔ وسیم اختر کے دور میں گاڑیوں کے پارٹس فروخت کیے گئے۔ جبکہ کیمکیل گلف، فیس ماسک، ٹارچ، لیدر گلف، ربر ہینڈ گلف، گوگلز اور فائر مین ہیلمٹ سمیت دیگر چیزوں کیلئے کئی بار بجٹ جاری ہوا۔ لیکن مذکورہ بجٹ ہڑپ کرلیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ محکمہ فائر بریگیڈ میں سیاسی بھرتیوں نے محکمے کو تباہی کے دہانے پہنچا دیا ہے۔ سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں ایسے ملازمین کو فائر اسٹیشن افسر تعینات کیا گیا جن کا محکمے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ بعض ایسے ملازمین موجود تھے جو گریڈ 5 میں ملازمت کررہے تھے۔ تاہم وسیم اختر کے دور میں انہیں گریڈ 17 دیکر اہم عہدہ دے دیا گیا۔ سابق چیف فائر افسر مبین احمد کی تعیناتی پر بھی سنیئر افسران نے کئی بار اعتراضات اٹھائے۔ لیکن وسیم اختر کا چہیتا ہونے کے باعث انہیں عہدے سے نہ ہٹایا جاسکا۔

’’امت‘‘ کو چیف فائر افسر اشتیاق احمد نے بتایا کہ فائر بریگیڈ میں بہتری لانے کیلئے سندھ حکومت اور ایڈمنسٹریٹر کراچی سیف الرحمن محنت کر رہے ہیں۔ ہماری 6 اے ڈی پی اسکیمیں منظور ہوگئی ہیں۔ جس سے فائر بریگیڈ میں آلات کی کمی دور ہوجائے گی۔ شہر میں 2 اسنارکل موجود ہیں جو شہریوں کو رسیکیو کرتی ہیں۔ اسنارکل سینٹرل اور ناظم آباد کے علاقے میں کھڑی ہیں۔ 8 بڑی باؤزر گاڑیاں چلانے کیلئے ڈرائیور کی ضرورت ہے۔ تاہم ابھی بھرتیوں پر پابندی ہے۔ جیسے ہی پابندی ہٹے گی بھرتی کرلیں گے۔