عید کے جوڑے درزیوں کے پاس پڑے ہیں- اہل خانہ خوشی کا تہوار سوگ میں منائیں گے،فائل فوٹو
عید کے جوڑے درزیوں کے پاس پڑے ہیں- اہل خانہ خوشی کا تہوار سوگ میں منائیں گے،فائل فوٹو

’’عید اپنے بابا کے ساتھ ہی منائوں گی‘‘

محمد نعمان اشرف :

’’عید تو میں اپنے بابا ہی کے ساتھ منائوں گی‘‘۔ 11 سالہ انوشہ کی یہ ضد سننے والوں کو اشک بار کر رہی ہے۔ انوشہ بھی انہی بچوں میں شامل ہے جن کے پیارے بابا لگ بھگ ایک ہفتے قبل نیو کراچی صنعتی ایریا کی فیکٹری میں آگ بجھاتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ یاد رہے کہ بارہ اپریل کو پیش آنے والے اس واقعے میں چار فائر فائٹرز 40 سالہ محسن شریف، 40 سالہ خالد شہزاد، 35 سالہ سہیل اور 55 سالہ افضل 55 شہید ہوگئے تھے۔ اس وقت ان شہید فائر فائٹرز کے گھروں میں عید کی خوشیاں سوگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

اہل خانہ کے مطابق شہید فائر فائٹرز کے عید کے کپڑے اب بھی درزیوں کی دکان پر پڑے ہوئے ہیں۔ چاروں فائر فائٹرز گھر کے واحد کفیل تھے۔ شہید سہیل کے والدین کے دل کا علاج بھی ادھورا رہ گیا ہے۔ بوڑھے ماں باپ، بیٹے کی وردی دیکھ دیکھ کر رو رہے ہیں۔ شہید محسن شریف کی 11سالہ بیٹی انوشہ 7 دن سے والد کا انتظارکررہی ہے۔ گھر کا سربراہ ہمیشہ کیلیے جدا ہوجانے سے بچے صدمے سے دوچار ہیں۔ جاں بحق محمد افضال اپنی جواں سال بیٹی کی شادی کرنے جارہے تھے۔

محکمہ فائر بریگیڈ نے اپنی مدد آپ کے تحت جاں بحق اہلخانہ کے گھروں پر ایک، ایک لاکھ روپے پہنچائے ہیں۔ گل مہر سٹی کی جانب سے ہر شہید کے اہلخانہ کو 125 گز کا پلاٹ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے اہلخانہ کو 50 لاکھ روپے اور ایک بچے کو نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

12 اپریل کو نیو کراچی صنعتی علاقے میں آتشزدگی کے بعد فیکٹری زمین بوس ہونے کی اطلاع موصول ہوئی تھی، جس میں 15سے زائد فائر بریگیڈ کے ملازمین زخمی ہونے کی اطلاعات تھی۔ دوران علاج 4 فائر فائٹرز محسن شریف، خالد شہزاد، سہیل اور افضل جانبر نہ ہوسکے۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے شہید محسن شریف کے گھر والوں سے رابطہ کیا گیا تو ان کے بھائی الطاف نے بتایا کہ ’’میں خود بھی فائر بریگیڈ کا ملازم ہوں۔ جس روز یہ واقعہ پیش آیا، میں ڈیوٹی پر موجود تھا۔ ہمیں اطلاع دی گئی کہ ایک فیکٹری زمین بوس ہوگئی ہے جس میں متعدد ملازمین زخمی ہوگئے ہیں۔

 

فائل فوٹو
فائل فوٹو

مجھے میرے اسٹیشن افسر نے کہا کہ جناح اسپتال پہنچو، وہاں زخمیوں کو لایا جارہا ہے۔ ہم راستے میں تھے کہ مجھے یاد آیا کہ مذکورہ فیکٹری میں تو بھائی بھی گئے تھے جن کو میں نے کالز کرنا شروع کی، لیکن کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ میں اپنے اسٹیشن افسر کو بتارہا تھا کہ بھائی سے متعلق دل میں عجیب خیال آرہے ہیں، ان سے رابطہ نہیں ہورہا ہے۔ اللہ سب کی حفاظت کرے۔

کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ واقعے میں میرا بھائی بھی زخمی ہوگیا ہے۔ پھر اسپتال سے اطلاع آئی کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں نے گھر پر خبر دی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ میرے شہید بھائی کے 2 چھوٹے بچے ہیں، جن میں 11سالہ انوشہ اور 13سالہ بیٹا اریب ہے۔ بچے عید کی تیاریاں کررہے تھے۔ بچوں نے والد سے بہت سے امیدیں لگائی ہوئی تھی کہ اس عید پر ہم اپنے بابا کے ساتھ گھومنے پھرنے جانا ہے۔

میرے والد بھی محکمہ فائر بریگیڈ کے ملازم تھے، وہ فیکٹریوں کی کیمکیل آگ بجھاتے بجھاتے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ جگر کے کینسر ہونے کے باعث وہ انتقال کرگئے تھے جن کی جگہ محسن شریف کو ملازمت دی گئی تھی۔‘‘ ’’امت‘‘ نے شہید محسن شریف کی بیٹی انوشہ سے بات کی تو اس کا کہنا تھا کہ ’’مجھے نہیں معلوم بابا کہاں چلے گئے ہیں۔ مگر مجھے پتا ہے وہ عید پر ضرور مجھ سے ملنے آئیں گے اور میں ان کے ساتھ ہی عید مناؤں گی۔ ہم نے خریداری بھی کرنی ہے اور بابا سے بہت سے فرمائشیں بھی کر رکھی ہیں۔ بابا پتا نہیں کہاں چلے گئے ہیں، ماما بھی نہیں بتار ہی ہیں اور نہ ہی دادی بتارہی ہیں۔ جب بھی بابا کا پوچھتی ہوں، دادی رونا شروع کردیتی ہیں۔‘‘

’’امت‘‘ کی جانب سے شید محمد افضال کے بیٹے محمد بلال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’انتقال سے قبل والد ہمارے ساتھ روزہ کھول رہے تھے کہ اس دوران وہ ذکر کررہے تھے کہ بتایا کہ ایک واقعہ ہوگیا ہے جس کے باعث مجھے جانا پڑے گا۔ ہم نے ان سے معلوم کیا تو بتایا کہ ایک فیکٹری میں آگ لگی ہے۔ عشا کی نماز کے بعد وہاں پہنچنا ہے۔ ہم نے والد کو کہا کہ آپ اپنا بہت خیال رکھیے گا اور وہ عشا کی نماز کے بعد گھر سے روانہ ہوگئے۔

رات 3 بجے میرے پاس محکمے سے کال آئی کہ آپ کے والد زخمی ہوگئے ہیں، جن کو علاج کے لیے عباسی اسپتال پہنچایا گیا ہے۔ میں نے یہ اطلاع سنتے ہی بڑے بھائی کو بتایا کہ کوئی ایمرجنسی ہوگئی ہے، ہمیں عباسی اسپتال جانا پڑے گا۔ جس پر بھائی نے کہا کہ مجھے کام ہے تم ہوکر آجائو۔ میں نے آدھا سفر ہی طے کیا تھا کہ پھر فون آیا اور بتایا گیا کہ تمہارے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ اطلاع سننے کے بعد مجھ پر قیامت ٹوٹ گئی۔ میں روتا ہوا اسپتال پہنچا، جب وہاں پہنچے تو زخمیوں کی تعداد زیادہ تھی۔

مجھے بتایا گیا کہ آپ کے والد سمیت دیگر 3 ملازمین بھی ملبے تلے دب کر شہید ہوگئے ہیں۔ میں نے گھر پر اطلاع دی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ محلے داروں کی ایک بڑی تعداد تعزیت کے لیے میرے گھر پہنچ گئی۔‘‘

محمد بلال نے بتایا کہ ’’ابو گھر کے واحد کفیل تھے۔ ابو میرے گھر کے علاوہ اپنے بہن بھائیوں کی کفالت بھی کررہے تھے۔ پھوپو اور تائی کے گھر کے حالات اچھے نہیں، ابو ان کے گھر کو دیکھتے ہوئے بھی چلتے تھے۔ ہمارا ایک بھائی شادی شدہ ہے۔ بہن نے انٹر کی تعلیم مکمل کی ہے۔ چھوٹا بھائی نویں کلاس میں ہے اور میں گھر کے حالات دیکھتے ہوئے تعلیم ادھوری چھوڑ کر ملازمت کرنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ والد کے جانے کے بعد عید کی خوشیاں سوگ میں بدل گئی ہیں۔ میں نے والد سے فرمائش کی تھی کہ اس عید پر مجھے نئی چپل اور کپڑے دلوائیں۔ جس پر انہوں نے ہامی بھری تھی اور ہم نے ساتھ خریداری کے لیے جانا تھا۔

رواں سال والد نے یہ ارادہ بھی کیا تھا کہ بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کریں گے، جس کے لیے ہم نے تیاری بھی شروع کرلی تھی۔ میری بہن کو جب والد کے انتقال کی خبر ملی ہے، تب سے وہ غم سے نڈھال ہے۔ یہ ہماری اکلوتی بہن ہے جس کو والد بہت پیار سے رکھتے تھے۔ گھر کا سربراہ جدا ہوجانے سے ہم پر قیامت ٹوٹ گئی ہے۔ میں بھاگ دوڑ میں شدید بیمار ہوگیا ہوں۔ اب تک ہماری مدد محکمے کے افسران نے ہی کی ہے۔ ہمارے پاس کوئی پیسے موجود نہیں تھے، جس پر محکمہ فائر بریگیڈ کے افسران نے ہمیں ایک لاکھ روپے کیش دیئے جس سے ہم نے میت کے اخراجات اٹھائے۔ جے ڈی سی کی جانب سے 5 لاکھ روپے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم والدہ ابھی عدت میں ہیں۔ ان کا بینک اکاؤنٹس کھلوائیں گے تو اس کے بعد یہ رقم مل جائے گی۔

گل مہر سٹی کی جانب سے 125 گز پلاٹ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں میرے والد کی جگہ مکمل نہیں کرسکتیں۔ گورنر سندھ نے اعلان تو کیا ہے کہ ملازمت ملے گی، لیکن اس میں تاخیر ہورہی ہے جس کی وجہ سے کفالت مشکل ہورہی ہے۔ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے افسران سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری ملازمت کا راستہ نکالا جائے تاکہ گھر کی کفالت کرنا آسان ہوجائے۔‘‘

شہید سہیل کے بھائی شعیب نے بتایا کہ رات 5:30 بجے مجھے کال آئی کہ آپ کا بھائی شدید زخمی ہوگیا ہے فوری طور پر عباسی اسپتال پہنچ جائیں۔ کچھ دیر بعد محکمے سے دوبارہ کال آئی جس میں کہا گیا کہ سہیل کا انتقال ہوگیا ہے۔ خبر سننے کے بعد میں زمین پر ہی بیٹھ گیا اور ماموں کو آواز دی۔ ماموں کو بتایا کہ ایسی کال آئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے۔ عباسی اسپتال پہنچنے پر بھائی کی شناخت کرنے کے بعد گھر والوں کو حیدرآباد میں اطلاع دی جس پر بہنیں اور بھائی فوری کراچی پہنچے۔

سہیل بھائی، ہمارا والد کی طرح خیال رکھتے تھے۔ ہمارے والدین دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ہم نے ہمت کرکے والدین کو بتایا تو والدین رونے لگے اور کہا کہ ہمیں لے چلو اپنے بیٹے کے پاس۔ پورا محلہ ان کو دلاسہ دے رہا ہے۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کا یونیفارم دیکھ دیکھ کر رو رہے ہیں۔ والدہ نے سہیل کی وردی سینے سے لگا رکھی ہے۔ میں خود کے ایم سی کا ملازم ہوں۔ بھائی اکثر بتاتے تھے کہ آگ بجھاتے ہوئے ان کی ٹانگ زخمی ہوگئی تھی۔ کبھی ہاتھ زخمی ہوجاتے تھے۔ وہ جب بھی کسی واقعے سے ہوکر آتے تھے تو غصہ کرتے تھے کہ ہمارے پاس مناسب آلات ہی موجود نہیں ہیں، کسی دن کوئی سانحہ ہوجائے گا تب کے ایم سی کو سمجھ آئے گی۔ کیا معلوم تھا کہ بھائی خود ایک سانحہ کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘

واضع رہے کہ 12اپریل کے روز نیو کراچی صنعتی علاقے میں آتشزدگی کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔ فیکٹری میں لگنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ آگ بجھانے کے لیے10 فائر ٹینڈرز، اسنارکلز اور بائوزرسمیت دیگر گاڑیوں نے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ نیو کراچی صنعتی علاقے میں اس روز تین فیکٹروں میں آتشزدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ تاہم زمین بوس ہوجانے والی عمارت میں کولنگ کا عمل جاری تھا۔ اسی دوران عمارت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں محسن شریف عمر 40 سالہ، خالد شہزاد عمر 40 سالہ، سہیل عمر 35 سالہ ، افضل عمر 55 سالہ ،ندیم ولد عبدالکریم عمر45 سالہ، عارف ولد التمش عمر 40 سالہ، عباس ولد مشرف عمر 50 سالہ، عبدالحاکم ولد شریف عمر 20 سالہ، امان اللہ ولد بدراللہ عمر 40 سالہ، ریحان ولد عارف عمر 50 سالہ، عبداللہ بیگ ولد ادریس بیگ عمر 20 سالہ، ندیم ولد ہاشم عمر 40 سالہ، محمد ریاض ولد اشفاق احمد عمر 50 سالہ، شیعب ولد سلیمان عمر 55 سالہ، اعجاز کاظم ولد محمدی کاظم عمر 43 سالہ، عارف ولد علی محمد عمر 55 سالہ اور رحیم ولد مصیاب خان عمر 59 سالہ ملبے تلے دب کر زخمی ہوگئے۔

عمارت زمین بوس ہوجانے کی اطلاع موصول ہوتے ہی ریسکیو اداروں کی ٹیمیں فوری طور پر متاثرہ مقا م پہنچی زخمیوں کو طبی امداد کے لیے عباسی اور جناح اسپتال پہنچایا گیا۔ عباسی اسپتال میں دوران علاج 4 فائرفائٹرز شہید ہوگئے جن کی شناخت محسن شریف عمر 40 سالہ، خالد شہزاد عمر 40 سالہ، سہیل عمر 35 سالہ ، افضل عمر 55 سالہ کے نام سے ہوئی۔