احتجاج کے لیے درخواست ضلعی انتظامیہ کو جمع کروا دی گئی ہے، فائل فوٹو
احتجاج کے لیے درخواست ضلعی انتظامیہ کو جمع کروا دی گئی ہے، فائل فوٹو

جمعیت علمائے اسلام دوبارہ سڑکوں پر آنے کی تیاری کرنے لگی

امت رپورٹ :
جمعیت علمائے اسلام ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اگر چودہ مئی کو پنجاب میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنا دیا گیا تو مولانا فضل الرحمن اپنے کارکنوں کو احتجاج کی کال دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے حتمی فیصلہ ہونے کی صورت میں ماضی میں جے یو آئی کی طرف سے کئے گئے ملین مارچ نوعیت کے مظاہرے کیے جائیں گے۔

جمعیت علمائے اسلام پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے سے متعلق اپنے دو ٹوک موقف سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس سلسلے میں آج سے اسلام آباد میں شروع ہونے والا جے یو آئی مرکزی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ جس میں ان تمام معاملات پر مشاورت کر کے سخت فیصلے متوقع ہیں۔ یہ ہنگامی اجلاس مولانا فضل الرحمن کی ہدایت پر طلب کیا گیا ہے۔ جو تین سے چار دن تک جاری رہ سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بیان کردہ ایشوز اور دیگر عوامل پر تفصیلی مشاورت کے بعد ایک ٹھوس اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہتے ہیں۔ اجلاس میں صوبہ خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا ایریاز میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کئے جائیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق درمیان کا راستہ نکالنے سے متعلق پیپلز پارٹی کے موقف پر جہاں نواز شریف اور مریم نواز مطمئن نہیں۔ وہیں مولانا فضل الرحمن بھی اس مطالبے کو بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے میں اتحادیوں کے مابین پھوٹ کا امکان بڑھ گیا ہے۔ تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد اگرچہ بہت سے معاملات پر شروع سے ایک پیج پر نہیں تھا۔ لیکن اب دراڑیں واضح دکھائی دینے لگی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے اتحادیوں سے پیپلز پارٹی کا بڑھتا اصرار اور عدالتی احکامات سے متعلق مشترکہ حکمت عملی طے نہ کرنا اس دراڑ کے بنیادی اسباب ہیں۔

واضح رہے کہ سب سے پہلے ’’امت‘‘ نے یہ خبر بریک کی تھی کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا اصرار ہے کہ نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر اتحادی پارٹیاں پنجاب میں الیکشن کی ایک تاریخ پر اتفاق رائے کے لئے پی ٹی آئی سے مذاکرات کریں۔ اس تجویز پر وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے ہمنوا بعض پارٹی رہنما تو کنوینس ہیں۔ تاہم نواز شریف اور مریم نواز اس کے حق میں نہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن بھی عمران خان سے بات چیت کرنے کے سخت خلاف ہیں۔ بلکہ وہ اپنے اتحادیوں کی جانب سے اس نوعیت کی کوششوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ رپورٹ اٹھارہ اپریل کو ’’امت‘‘ کے صفحہ تین پر شائع ہوئی تھی۔

اتحادیوں میں یہ دراڑ واضح ہو چکی ہے اور اب مختلف میڈیا رپورٹس بھی ان اختلافات کی تصدیق کر رہی ہیں۔ ان معاملات سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کو لے کر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے اصرار پر مولانا فضل الرحمن خوش نہیں۔ تاہم وہ اس پر بھی سخت برہم ہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل سب سے بڑی پارٹی نون لیگ مشترکہ حکمت عملی طے کئے بغیر سپریم کورٹ میں کیوں پیش ہوگئی۔ اس کے برعکس جمعیت علمائے اسلام اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر پارٹیوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں الیکشن سے متعلق اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں عید سے قبل سیاسی پارٹیوں کی قیادت کو طلب کیا تھا۔ تحریک انصاف، قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ نون لیگ کے خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق بھی ان احکامات پر عدالت پہنچنے والوں میں شامل تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ نون لیگ کے یہ رہنما پارٹی صدر اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر عدالت گئے تھے اور دونوں پارٹی کے اس گروپ کا حصہ ہیں۔ جو پنجاب میں الیکشن کی ایک تاریخ پر اتفاق رائے کے لئے درمیان کا راستہ نکالنے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ تاہم ذرائع کے بقول سعودی عرب سے مریم نواز کی واپسی کے بعد پارٹی کا موقف تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ مولانا نے نون لیگی رہنمائوں کی عدالت پیشی پر اپنی شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اب نواز شریف عمرے کی مصروفیات سے فارغ ہو چکے ہیں۔ لہٰذا وہ اس معاملے پر نواز شریف سے بھی رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان سطور کے پڑھے جانے تک وہ نواز شریف کو فون کرچکے ہوں۔

جب جے یو آئی کے ایک اہم رہنما سے استفسار کیا گیا کہ آصف زرداری پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لئے اس قدر مصر کیوں ہیں، تو ان کا کہنا تھا ’’فی الحال تو خود مولانا فضل الرحمن کو بھی ان وجوہات کا علم نہیں کہ پیپلز پارٹی یہ اصرار کیوں کر رہی ہے اور اسے کس کا اشارہ ہے؟ وجوہات کچھ بھی ہوں۔ لیکن ہم ان کے گیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ پہلے بھی پیپلز پارٹی ہمارے کہنے پر نہ پارلیمنٹ سے مشترکہ استعفیٰ دینے پر تیار ہوئی تھی اور نہ ہی لانگ مارچ کا حصہ بنی تھی‘‘۔

اس سوال پر کہ پی ڈی ایم اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اگرچہ ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے کہ آصف زرداری مذاکرات کے لئے اصرار کیوں کر رہے ہیں۔ تاہم انہیں کچھ اندازہ تو ہوگا کہ وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ جے یو آئی رہنما کا جواب تھا کہ اس کے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کراچی کی میئر شپ کے لئے متحرک ہیں۔ جبکہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کا ووٹ فیصلہ کن ہے۔ وہ ان دونوں میں سے جسے سپورٹ کرے گی۔ اس کا میئر بن جائے گا۔ شاید پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ مذاکرات کی کوششوں کے ذریعے وہ پی ٹی آئی کے دل میں اتنی جگہ پیدا کر سکتی ہے کہ وہ کراچی کی میئر شپ کے لئے اس کی حمایت کر دے۔ لیکن صرف یہی ایک وجہ نہیں۔ اس کے دیگر عوامل بھی ہیں جو آج نہیں تو کل واضح ہوجائیں گے۔