امت رپورٹ :
عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں جنرل (ر) باجوہ کے کہنے پر نہیں توڑی تھیں۔ بلکہ ایک اور ادارے کی اہم شخصیت کے مشورے پر تحلیل کی تھیں۔ جس کا تعلق ملٹری اسٹبلشمنٹ یا سیاست دانوں سے نہیں۔ اس اہم شخصیت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو یقین دلایا تھا کہ الیکشن میں نوے روز سے ایک دن اوپر نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن حکومت کی غیر متوقع مزاحمت نے یہ دعویٰ غلط کردیا۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اہم شخصیت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو یقین دلایا تھا کہ دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے نتیجے میں اول تو اتحادی حکومت قومی اسمبلی توڑنے پر مجبور ہوجائے گی۔ اور اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو نوے روز بعد دونوں صوبوں میں الیکشن کا انتظام کرادیا جائے گا۔ جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپس جانے کی تلقین کی جاتی رہی۔ تاکہ کسی کی سوچ بھی مشورہ دینے والی شخصیت کی طرف نہ جائے۔
ذرائع کے بقول یہ ایک پورا پلان تھا۔ جس میں اہم شخصیت کے بعض ریٹائرڈ ساتھی بھی شامل تھے۔ پلان یہ تھا کہ پی ٹی آئی پہلے دونوں صوبوں میں پانچ برس کے لیے حکومت بنالے گی تو مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق تاہم پلان بنانے والوں کی توقع کے برعکس اتحادی حکومت ڈٹ گئی۔ اب یہ پلان ان کے گلے پڑ چکا ہے۔ نوے روز کے حساب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بالترتیب چودہ اور اٹھارہ اپریل کو انتخابات لازم تھے۔ اس میں تاخیر ہوچکی ہے۔
ادھر پہلی بار پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ اس طرح آمنے سامنے ہیں کہ ملکی تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کچھ دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مشورے پر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی تھیں اور یہ کہ جنرل باجوہ سے ملاقات کے دوران جہاں صدر عارف علوی بھی موجود تھے، سابق آرمی چیف نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر پی ٹی آئی کے سربراہ انتخابات چاہتے ہیں تو انہیں پہلے دونوں صوبوں میں اپنی حکومتیں تحلیل کرنی چاہئیں۔ تاہم جب میڈیا پر عمران خان کے اس بیان کو لے کر سخت تنقید کی گئی اور سوشل میڈیا پر طنزیہ پوسٹوں کی بھر مار ہوگئی تو پی ٹی آئی کو یہ کہہ کر تردید کرنی پڑی کہ خان کی بات توڑ مروڑ کر پیش کی گئی۔ حالانکہ انٹرویو میں عمران خان واضح طور پر یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ انہوں نے باجوہ کے کہنے پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی تھیں۔
عمران خان نے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا مشورہ دینے والے اصل کردار کے بجائے باجوہ کا نام کیوں لیا؟ یہ فی الحال معمہ ہے۔ حالانکہ عمران خان نے جس ملاقات کا حوالہ دیا۔ تب باجوہ ریٹائر ہونے والے تھے اور اس نوعیت کی کوئی یقین دہانی کرانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ یاد رہے کہ ستمبر دو ہزار بائیس کے وسط میں پی ٹی آئی جنوبی پنجاب چیپٹر کے سابق صدر اسحاق خاکوانی نے ایک ٹاک شو میں انکشاف کیا تھا کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کے مابین ملاقات ایوان صدر میں ہوئی اور اس کا بندوبست صدر عارف علوی نے کیا تھا۔
ذرائع کے بقول لڑائی اب فیصلہ کن مر حلے میں داخل ہو رہی ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا مشورہ دینے والے منصوبہ ساز ہر صورت عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانا چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسرا فریق ہر قیمت پر ایسا ہونے کو روکنا چاہتا ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے پلان ہیں۔ کامیاب کون ہوتا ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اصل طاقت چونکہ حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ لہذا عموماً پلڑا بھی اسی کا بھاری رہتا ہے۔ عدالت احکامات دے سکتی ہے۔ لیکن اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کے لیے اس کے پاس مشینری یا فورس نہیں ہوتی۔
اس کشیدہ ماحول کے دوران فریقین میں مذاکرات کی ایک اور کوشش کی گئی ہے۔ جمعرات کی شام ان سطور کے لکھے جانے تک پی ٹی آئی اور حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔ فواد چوہدری کے بقول حکومتی نمائندوں کو عمران خان کا پیغام پہنچادیا گیا تھا۔ تاہم اس ڈویلپمنٹ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے بقول اس بات چیت کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ کیونکہ پی ٹی آئی ہر صورت ستمبر سے پہلے الیکشن چاہتی ہے۔ جبکہ حکومت کے خیال میں ستمبر کے بعد انتخابات میں اس کی سیاسی بقا ہے۔ فی الحال دونوں میں سے کسی ایک کے بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔