محکمہ صحت کے شعبہ جات غیر فعال ہونے سے عالمی معیار کے بڑے اسپتال بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں ، فائل فوٹو
محکمہ صحت کے شعبہ جات غیر فعال ہونے سے عالمی معیار کے بڑے اسپتال بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں ، فائل فوٹو

محکمہ صحت کا نگراں نظام غیر فعال،بڑے اسپتالوں میں لوٹ مار

کراچی ـ رپورٹ : سید نبیل اختر:

صوبائی کوالٹی کنٹرول اور اپیلیٹ بورڈ کے غیر فعال ہونے سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہوگئے ۔

غیر معیاری اور جعلی دوا کی بھرمار کے باوجود 8 برس کے دوران کسی ایک مینوفکیچرر، ڈسٹری بیوٹر ، ہولیسیلر اور ریٹیلر(میڈیکل اسٹور) کا لائسنس منسوخ نہیں کیا گیا ۔ کوالٹی کنٹرول بورڈ کے تین برس میں محض تین اجلاس بلائے گئے، اپیلیٹ بورڈ کا کوئی ایک اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا ۔محکمہ صحت کے شعبہ جات غیر فعال ہونے سے عالمی معیار کے بڑے اسپتال بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں ،90 روپے کی دوا 450 روپے میں (400 فیصد ) فروخت کرنے پر ایک شہری گلے پڑ گیا ۔

اہم ذرائع نے بتایا کہ صوبائی محکمہ صحت کی غفلت سے شہریوں کی جانیں داؤپر لگی ہوئی ہیں ، محکمہ کے شعبہ جات انسپکٹریٹ ، کوالٹی کنٹرول اور اپیلیٹ بورڈ بھی غیر فعال ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو غیر معیاری ، مہنگی اور جعلی ادویات فروخت کی جارہی ہیں ۔

ذرائع نے بتایا کہ صوبائی ڈرگ انسپکٹرز کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے بھر میں 8 برس کے دوران کسی ایک مینوفکیچرر، ڈسٹری بیوٹر ، ہولیسیلر اور ریٹیلر(میڈیکل اسٹور) کا لائسنس منسوخ نہیں ہوا ، معلوم ہوا ہے کہ اپیلیٹ بورڈ کی گزشتہ 8 برس کے دوران ایک اجلاس بھی نہیں بلایا گیا جبکہ قیام سے لے کر اب تک جیکب آباد کا صرف ایک کیس اپیلیٹ بورڈ میں درج کیا گیا ہے ، یہ کیس بھی محض اس لیے اپیلیٹ بورڈ میں آیا کیونکہ صوبائی ڈرگ انسپکٹر نے ایک دوا کے جعلی ہونے پر جیکب آباد کے ایک میڈیکل اسٹور کا لائسنس منسوخ کردیا تھا، اسے دوا کی فروخت سے روک دیا گیا تھا ۔

بعد ازاں اپیلیٹ بورڈ غیر فعال ہوگیا ، جس کی سربراہی سیکریٹری صحت سندھ کرتے ہیں ، اپیلیٹ بورڈ میں ڈرگ کے وہ کیسز لائے جاسکتے ہیں جس میں مینوفیکچررز، ڈسٹری بیوٹرز اورسیلرز کے لائسنس منسوخ ہوئے ہوں  تاہم 8 برس کے دوران صوبائی ڈرگ انسپکٹرز نے کوئی لائسنس منسوخ ہی نہیں کیا ۔

اپیلیٹ بورڈ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں صوبے کی دو یونیورسٹیز کے پروفیسر ( ایم بی بی ایس ،فارمیسی )، فارما بیورو اور پاکستان کیمسٹ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے نمائندے بطور رکن اپیلیٹ بورڈ شریک ہوتے ہیں ، امت کو پی سی ڈی اے کراچی کے ایک ذمہ دار صلاح الدین شیخ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہیں گزشتہ دس برس کے دوران اپیلیٹ بورڈ کے کسی اجلاس کا دعوت نامہ موصول نہیں ہوا،انہوں نے بتایا کہ اپیلیٹ بورڈ کا ایک اجلاس صلاح الدین تنیو کے دور میں ہوا تھا جسے پہلا اجلاس قرار دیا گیا تھا تاہم اس کے بعد سے یہ بورڈ عملاً غیر فعال ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت قانون بنالیتی ہے لیکن پر عملدرآمد نہیں کرایا جاتا جس کا فائدہ مافیا کو پہنچتا ہے ،دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ صوبائی کوالٹی بورڈ کے اجلاس کے حوالے سے قانون کہتا ہے کہ اسپیشل سیکریٹری صحت کی سربراہی میں کوالٹی کنٹرول بورڈ کا اجلاس ہر دوسرے ماہ منعقد کیا جائے گا جس میں ڈرگ رولز کی خلاف ورزی کرنے والے مینوفکیچرر، ڈسٹری بیوٹر ، ہولیسیلر اور ریٹیلر(میڈیکل اسٹور) کے کیسز کی منظوری دی جائے گی ،تاہم 3 برس کے دوران کوالٹی کنٹرول بورڈ کے محض 3 اجلاس بلائے جاسکے ہیں جس کی وجہ سے جعلی ، غیر معیاری اور غیر اندراج شدہ ادویات کے سیکڑوں کسیز لٹکے ہوئے ہیں۔

صوبائی ڈرگ انسکپٹرز شہر کے میڈیکل اسٹوروں سے بھتہ وصول کرنے پر مامور ہیں نتیجتاً صوبے کے کسی ایک میڈیکل اسٹور سے بھی قانونی کے مطابق دوا فروخت نہیں ہورہی ہے ، اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ کراچی کے عالمی معیار کے بڑے نجی اسپتال میں ایک شہری نے 400 فیصد مہنگی دوا فروخت کرنے پر ہنگامہ کردیا تھا ، مذکورہ اسپتال کے پاس 250 فارماسسٹ ہیں جو اسپتال اور میڈیکل اسٹورز پر تعینات ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ بڑے اسپتال دوا کی پرسکرپشن پر مالکیول نام سے دوا تجویز کرنے کے حوالے سے قانون پر عملدرآمد کرتے ہیں۔

مذکورہ اسپتال کے ڈاکٹر نے ایک مریضہ کو ایمیکیسن ( AMIKASIN) تجویز کی ، تیماردار نے اسپتال کے میڈیکل اسٹورکارخ کیا تو وہ دوا 450 روپے میں دستیاب تھی ،اتفاق سے تیمار دار فارماسسٹ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ یہ دوا 90 روپے میں فروخت ہوتی ہے اور اس دوا کا امپورٹر مہران ٹریڈرز ہے جو چین سے دوا امپورٹ کرکے 90 روپے میں فروخت کرتا ہے ، شہری نے اسپتال کی فارمیسی میں موجود عملے سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ دوا اسکیوب نامی کمپنی سے امپورٹ کی گئی ہے جو 450 روپے میں فروخت کرتے ہیں، اگلے روز شہری بڑے اسپتال کے نام سے مہران ٹریڈرز کا بل لے کر فارمیسی پہنچ گیا اور ہنگامہ کھڑا ہوگیا ،اسپتال انتظامیہ نے شہری کی بات مان کر اسے 90 روپے چارج کرتے ہوئے باقی رقم واپس کردی۔

ذرائع نے بتایا کہ دوا کی قیمت بھی کم تھی لیکن شہری کو ناجائز بلنگ پر غصہ آگیا اور اس نے بڑے اسپتال کا پول کھول دیا ، شہری کو دوا کے پیسے واپس کرکے معاملے کو رفع دفع کردیا گیا لیکن صوبے بھر کے اسپتالوں کی فارمیسی اور شہر دیگر حصوں کے میڈیکل اسٹوروں میں شہریوں سے لوٹ مار جاری ہے۔ امت کو کراچی کے ایک ڈرگ انسپکٹر نے بتایا کہ میڈیکل اسٹوروں سے دوا کی بلنگ کا ریکارڈ چیک کرایا جائے تو شہر سے نصف جعلی دوا کا کاروبار ختم ہوجائے گا تاہم محکمہ صحت سندھ نے اس اہم معاملے پر چشم پوشی اختیار کررکھی ہے ۔