امریکا:بھوک ہڑتالی قیدیوں کو زبردستی کھاناکھلانے کے ہولناک طریقے

اجے کمارجون 2018 میں بھارت سے روانہ ہوا اورکیلیفورنیا میں امریکی سرحد پر جا پہنچا، وہاں اس نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ( آئی سی ای) نے اسے حراست میں لے لیا ، اجے کو امید تھی کہ اسے جلد رہا کردیا جائے گا مگر اسی امید میں ایک سال گزر گیا۔

مایوس ہوکر اس نے احتجاج کا فیصلہ کیا اور8 جولائی 2019میں دیگر تین بھارتی قیدیوں کے ساتھ اس نے رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کردی ۔ جواب میں آئی سی ای نے اسے ٹیکساس میں ایل پاسو سروس پروسیسنگ سینٹر میں منتقل کردیا۔یہ بھی آئی سی ای کی ہی ایک جیل تھی ۔

اجے اور اس کے تین ساتھیوں نے وہاں بھی بھوک ہڑتال جاری رکھی۔ جس پر ان چاروں کو زبردستی کھانا کھلانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے محکمہ انصاف کے وکلا کے ذریعے عدالت سے اجازت طلب کی گئی ۔ منظوری ملتے ہی اگست 2019 میں اجے کمار کو اس کے آخری کھانے کے 37روز بھی زبردستی کھانا کھلانے کی کوشش کی گئی  اور یہ مناظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ بھی کئے گئے

عام طور پر امریکی حکومت کے زبردستی کھانا کھلانے کے عمل اور طریقہ کار کو رازداری میں رکھا جاتا ہے،کیونکہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اسے بھی تشدد کا ایک طریقہ قرار دیتی ہیں

تقریباً ایک گھنٹہ طویل اس ویڈیو میں پانچ حراستی محافظوں کو دکھایا گیا ہے جو حفاظتی سامان سے لیس ہیں  اور اجے کمار کے خلاف طاقت کے استعمال کی تیاری کرتے ہوئے کیمرے کے سامنے اپنا تعارف بھی کراتے ہیں ۔ اس کے بعد وہاں موجود طبی عملہ ایک مترجم کے ذریعے پناہ طلب کرنے والوں سے متعلق طریقہ کارکی وضاحت کرتا ہے ۔ اور پھر اجے کمار کو زبردستی کھانا کھلانے کے لیے ناسوگاسٹرک ٹیوب ڈالنے کی کوششیں شروع کی جاتی ہے ۔ طبی اہلکار دو بار ٹیوب کو صحیح طریقے سے داخل کرنے میں ناکام رہے۔

آئی سی ای کسی بھی زیرحراست فرد کے خلاف طاقت کے استعمال کی وڈیو بنانے کی پابندی ہے تاہم اسے راز میں رکھا جاتاہے ۔ امریکی اشاعتی ادارے  The Interceptنے معاملہ کا علم ہونے پرفریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت آئی سی ای سے وڈیو طلب کی،مگرانہوں نے انکار کردیا ۔ دی انٹرسیپٹ نے مقدمہ دائر کیا تو آئی سی ای وڈیو دینے پر آمادہ ہوگئی۔لیکن وڈیو میں اجے کمار کے سوا نظر آنے والے تمام افراد کے چہرے چھپا دیئے گئے اور نام بھی تبدیل کردیئے گئے۔آئی سی ای نے معاملے پر کسی قسم کے تبصرے سے بھی انکار کردیا

اجے کمار نے دی انٹرسیپٹ کے ساتھ پہلی بار یہ وڈیو دیکھی، وڈیو وکلا تنظیم کے ان چار ماہرین کو بھی دکھائی گئی ، جو امیگریشن حراست پر کام کرتے تھے

اجے کمار نے دی انٹرسیپٹ کو بتایا کہ اسے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے سبب بھارت چھوڑنا پڑا۔ اس کے والد کو قتل کردیا گیا تھا اور اسے بھی خطرناک دھمکیاں مل رہی تھیں ۔بھارت سے وہ ایتھوپیا پہنچا، وہاں سے برازیل اور پھر کیلیفورنیا میں اس کا سفر اختتام کو پہنچا

پناہ کے متلاشی افراد کو عموماً امیگریشن کے حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے ۔ جہاں انہیں سیاسی پناہ کی درخواست کرنے کا قانونی حق فراہم کیا جاتا ہے ۔ وہ تب تک حراست میں رہتے ہیں جب تک ان کے کیس کا فیصلہ نہ ہوجائے ۔ حراست مراکز میں ان کے لیے حالات جیلوں جیسے ہوتے ہیں

زیرحراست آنے کے بعد اجے کمار فیصلے کا انتظار ہی کرتا رہا اس دوران اسے کہیں سے کوئی اشارہ تک نہیں ملا کہ وہ رہا کب ہوگا۔ اجے کمار نے انٹرسیپٹ کو بتایا کہ یہ ایک بہت برا تجربہ تھا۔ اسے قطعی امید نہیں تھی کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا۔

بھوک ہڑتال سے متعلق اس نے بتایا کہ پہلے چند دنوں تک میرا جسم  ہر وقت کھانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ لیکن 10 سے 12 دنوں کے بعد، بھوک مستقل طور پرختم ہوگئی لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے، کمزوری بڑھتی گئی۔ اس کا وزن 139 پاؤنڈ سے گر کر 118 ہو گیا تھا

اجے کمار نے بتایا کہ اسے اور اس کے تین ساتھیوں کو زبردستی کھانا کھلانے کی دھمکی دی گئی تھی۔جو گارڈز وہاں موجود تھے وہ دھمکی دے رہے تھے کہ اب تم ایل پاسو جاؤ گے اور تمہارے اندر ٹیوبیں ڈال دی جائیں گی۔ تمہیں زبردستی کھلایا جائے گا۔

The Intercept کی طرف سےحاصل آئی سی ای ریکارڈز سے پتہ چلا کہ 2018 میں یہاں کل 25 بھوک ہڑتالیں ہوئیں، جن میں سے چھ کو قیدیوں کی بھوک ہڑتال زبردستی مایع خوراک کے ذریعے ختم کی  گئی ۔ نومبر 2018 میں آئی سی ای  کے ایک قیدی کو نیو جرسی سے ایل پاسو لے جایا گیا تھا تاکہ اسے زبردستی کھانا کھلایا جا سکے۔ 2019 کے اوائل میں بیک وقت نو افراد کو زبردستی کھانا کھلایا گیا۔۔ اس سال یہاں  40 بھوک ہڑتالیں ہوئیں

قید بھوک ہڑتالیوں کو زبردستی کھانا کھلانے کا رواج امریکا میں وفاقی اور ریاستی سطح پر پھیلا ہوا ہے اس میں  ڈیموکریٹک اور ریپبلکن انتظامیہ دونوں ہی ملوث ہیں۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی فورس کئی امیگریشن جیلوں میں قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلاتی ہے۔ محکمہ انصاف کے بیورو آف جیلز نے بھی زبردستی کھانا کھلایا ہے، جس کے لیے عام طور پر جج کے حکم کی ضرورت ہوتی ہے۔

صحافی اور وکلا فورس فیڈنگ کی ویڈیوز حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں مگر انہیں فراہم نہیں کی جاتیں۔  2014 میں  ایک عدالت نے گوانتاناموبے کی ویڈیوز جاری کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن اوباما انتظامیہ کی اپیل کے بعد، تین وفاقی ججوں کے پینل نے اپنے فیصلے واپس لے لئے

زبردستی کھانا کھلانے کی پہلی ویڈیو 2016 میں ایک تحقیقاتی نیوز آرگنائزیشن وسکونسن واچ نے شائع کی تھی۔ وسکونسن میں ریاستی حکومت نے یہ طریقہ کار انجام دیا۔ وڈیو میں دکھایا گیا کہ ریاستی جیل میں ایک قیدی کو محکمہ اصلاح کے عملے نے زبردستی کھانا کھلایا۔ وہ طویل قید تنہائی کے خلاف بھوک ہڑتال پر تھا

یونیورسٹی آف کولوراڈو کے سینٹر فار بائیو ایتھکس اینڈ ہیومینٹیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر میٹ وینیا نے کہا کے مطابق اگر کسی کے پاس صلاحیت ہے – وہ قانونی طور پر اپنے طبی فیصلے خود کرنے کا اہل ہے تو آپ اسے زبردستی نہیں کھلا سکتے

14 اگست کواجے کمار کو زبردستی کھانا کھلانے کا عمل شروع کیا۔ دی انٹرسیپٹ کے ذریعہ حاصل کردہ ویڈیو میں تین دیگر بھوک ہڑتالی بستروں پر نظر آرہے ہیں، ان کے چہرے بھی چھپائے گئے ہیں اوروہ کمار کو زبردستی کھانا کھلاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

اجے کمارنے کہا کہ اگروہ چاہتےتومجھے دوسرے کمرے میں لے جا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اسے دوسروں کے سامنے زبردستی کھلایا تاکہ انہیں اس طریقہ کار سے گزرتے ہوئے دیکھ کر خود اپنی بھوک ہڑتال ختم کردیں ۔۔

وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جیسے ہی اصلاحی افسران نے کمار پر سختی کی تو  کیمرے کے پیچھے کوئی شخص سیکیورٹی آفیسر کو سختی میں کمی  اور اپنے ہاتھ استعمال کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔

ویڈیو میں زبردستی کھانا کھلانا شروع ہونے سے پہلے ایک خاتون جو خود کو "ڈاکٹر” ظاہر کرتی ہے اس طریقہ کارکی نگرانی کے لیے موجود ہے۔اجے کمارنے انکارکھانا کھانے سےانکارکیا تومحافظوں نے اسے پھر پکڑ لیا۔ویڈیو میں، یو ایس پبلک ہیلتھ سروس کی وردی پہنے دونرسیں زبردستی کھانا کھلا رہی ہیں

ویڈیو میں ایک نرس اپنے بائیں نتھنے کے ذریعے ٹیوب ڈالنا شروع کر رہی ہے،اجے کمار کو پانی کا گھونٹ پلایا جاتا ہے جو وہ پی لیتا ہے

"پہلے تو میں اس ٹیوب کو دیکھ کر ڈر گیا — وہ ٹیوب جو تقریباً میری انگلی کے برابر موٹی تھی، جسے وہ میری ناک میں ڈالنے والے تھے،” اجےکمار نے بتایا۔

اس عمل میں شامل ایک نرس کے لکھے گئے نوٹ کے مطابق ٹیوب تقریباً 6 ملی میٹر موٹی تھی۔ 2013 میں الجزیرہ کی طرف سے حاصل کردہ گوانتانامو کی فورس فیڈنگ دستاویزات کے مطابق اس کے مقابلے میں گوانتاناموبے کے قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلانے کیلئے استعمال ہونے والی ٹیوب 3.3 اور 4 ملی میٹر کے درمیان تھیں

جیسے ہی ٹیوب ڈالی جاتی ہے، اجےکمار کو درد محسوس ہوتا ہے، اس نے بتایا کہ ’’اس وقت میرے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ "میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ کاش یہ ٹیوب پلٹ کر میرے دماغ میں چلی جائے اور کہانی وہیں ختم ہو گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ گلے میں جا رہا ہے، گوشت پھاڑ رہا ہے۔ اور منہ اور ناک سے خون آنے لگا۔

اس کے بعد اسےکمار کو وہیل چیئر پر لے جایا جاتا ہے اور ٹیوب کی درست جگہ کی تصدیق کے لیے ایکسرے کے لیے لے جایا جاتا ہے، حالانکہ اسے کھڑے ہونے میں دقت ہوتی ہے۔ میڈیکل نوٹ اور ویڈیو کے مطابق ٹیوب داخل کرنے کی کوشش ناکام ثابت ہوئی ۔ طریقہ کار کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر نے بعد میں عدالت میں گواہی دی کہ ٹیوب اجےکمار کی غذائی نالی میں بند ہو گئی تھی۔ اجےکمار پھر بستر پر واپس آیا، جہاں ایک نرس ٹیوب کو ہٹاتی ہے۔

اجے کمار نے کہا، ’’جب انہوں نے ٹیوب کو کھینچ کر باہر نکالا تو ایسا لگتا کہ پیٹ میں موجود ہر چیز ٹیوب کے ساتھ باہر نکلنے والی ہے۔ یہ اتنا ہی تکلیف دہ تھا جتنا ٹیوب ڈالنا۔”

ایک نرس اور پھر ایک ڈاکٹر پوچھتے ہیں کہ کیا وہ اپنی بھوک ہڑتال توڑ کر پروٹین سپلیمنٹ پینا چاہیں گے۔ وہ انکار کرتا ہے۔ایک دوسری نرس ٹیوب ڈالتے ہوئے اسی طریقہ کار کو انجام دینے لگتی ہے۔

"جیسے ہی انہوں نے دوسری بار شروع کیا، یہ پہلی بار کے مقابلے میں زیادہ تکلیف دہ تھا، کیونکہ میری ناک پہلے ہی زخمی تھی اور ٹیوب دوبارہ پھاڑ کر اندر جا رہی تھی،” اجےکمار نے کہا۔ "تو دوسری بار پہلی سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔”

اس نے کہا، "جب انہوں نے اسے باہر نکالا، تو میرے گلے میں بہت خون تھا، جس کی وجہ سے مجھے قے کرنی پڑی، اور وہ میرے لیے کچرے کا ڈبہ لے کر آئے تاکہ خون تھوک سکوں

تیسری کوشش دائیں نتھنے کے ساتھ کی گئی کیونکہ ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ اس کا بایاں نتھنا پچھلی کوششوں سے بہت زیادہ سوجا ہوا تھا – یہ کوشش کامیاب رہی اورایک اور دوسری نرس  ٹیوب اس کے پیٹ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئی  ۔ .

اس کے بعد نرسوں میں سے ایک ٹیوب کے ذریعے غذائیت والا شیک اس کےپیٹ میں اتارنا شروع کرتی ہے۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق، 5 ستمبر کو، ان کی صحت کی حالت میں بہتری کے ساتھ، آئی سی ای نےاجے کمار کو زبردستی کھانا کھلانا روک دیا اور ٹیوب کو ہٹا دیا۔

لیکن اجے کمار نے بھوک ہڑتال ختم نہیں کیا ۔جس کی وجہ سے اس کی صحت دوبارہ بگڑنے لگی ۔ اس پر آئی سی ای نے اسے دوبار ٹیوب ڈالنے اور زبردستی خوراک شروع کرنے کے لیے عدالت کی منظوری طلب کی

اجےکمار کے وکیل میں عدالت میں ایک حلف نامہ جمع کرایا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ آئی سی ای اجے کمار کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہے ۔ وکیل نے انٹرسیپٹ کو بتایا کہ واضح طور پر وہ آہستہ آہستہ بہت زیادہ بیمار ہو رہا تھا۔ میں بہت فکر مند تھا کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا

فیڈرل جج نے ایک بار پھر 12 ستمبر کو اس طریقہ کار کی منظوری دے دی۔ کمار کو ایک ہسپتال لے جایا گیا، جہاں طبی عملے نے ایک اور ٹیوب ڈالی – اس بار بہت پتلی تھی – اور اسے زبردستی کھانا کھلانا شروع کر دیا۔

کمار اور اس کے وکیل کے مسلسل احتجاج اور شکایات کے بعد، آئی سی ای  نے ایک ہفتہ بعد کمار کے ساتھ معاہدہ کیا اور بالآخر 26 ستمبر کو اسے رہا کر دیا ۔ کمار کی بھوک ہڑتال 76 دن تک جاری رہی۔ مجموعی طور پر  اس کا 45 پونڈ کم ہوا۔

رہائی کے بعد پہلے چند مہینوں میں اسے کو قید تنہائی، بھوک ہڑتال اور زبردستی کھانا کھلانے کے بارے میں بار بار ڈراؤنے خواب آتے تھے۔