عرصہ دراز تک یورپ جانے کے خواہشمندوں کو لوٹنے والی تاحال ہاتھ نہ آسکی ،فائل فوٹو
عرصہ دراز تک یورپ جانے کے خواہشمندوں کو لوٹنے والی تاحال ہاتھ نہ آسکی ،فائل فوٹو

معمولی ٹیلی فون آپریٹر مطلوب ترین انسانی اسمگلر بن گئی

عمران خان :
’’ہیلومسٹر فرحان، آپ کے نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی میں ایڈمیشن اور ویزا اسپانسر شپ کے ڈاکیومنٹس تیار ہوچکے ہیں۔ اور آئندہ چند ہی دنوں میں ان کے اوریجنل ہمیں موصول ہوجائیں گے۔ آپ ابھی آکر ہمارے آفس میں آن لائن ویری فیکیشن کرسکتے ہیں۔ لیکن اب آپ کو ڈیل کے مطابق پہلے بارہ لاکھ روپے کی ادائیگی کرنی ہوگی۔‘‘

گلشن اقبال میں ’’کیریئر لنک ڈیولپمنٹ ایجوکیشن کنسلٹنسی‘‘ چلانے والی عاصمہ رفیق کی آواز جیسے ہی فرحان کے کانوں میں پڑی، اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور اس کی آنکھوں بیرون ملک جا کر اپنے اور گھر والوں کے مستقبل کو سنوارنے کے سہانے خواب پورے یقین کے ساتھ سجنے لگے۔ تاہم رقم کی ادائیگی کرنے کے بعد بھی جب کافی دنوں تک عاصمہ رفیق کوئی رابطہ ممکن نہیں ہوا، تو وہ گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں واقع اس کمپنی کے دفاتر تک گیا۔ لیکن وہاں لگے ہوئے تالے اس کا منہ چڑا رہے تھے۔ ساتھ ہی اس کی تمام امیدیں نہ صرف مایوسی میں بدل گئیں، بلکہ جمع پونجی اور قرض لے کر حاصل رقم لٹنے سے پائوں تلے سے زمین بھی کھسک گئی۔

عاصمہ رفیق، ایف آئی اے کو100سے زائد انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کی فہرسست میں شامل ان چار خواتین ملزمان میں نمایاں ہے، جن کی تلاش ایف آئی اے کو چھ سے دس برس سے ہے۔ تاہم یہ خواتین ملزم مختلف اوقات میں بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں، جنہیں آج تک ایف آئی اے واپس نہیں لاسکی ۔

دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے2019ء میں جاری کردہ انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کی ریڈ بک میں پہلی بار 4 خواتین کو بھی انتہائی مطلوب ملزمان کی حیثیت سے شامل کیا گیا، جن میں سے دو کا تعلق پنجاب، ایک کا اسلام آباد اور ایک کا کراچی سے ہے۔ انتہائی مطلوب انسانی اسمگلر عاصمہ کے حوالے سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس نے ابتدائی طور پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد گلشن اقبال اور گلستان جوہر کے مختلف نجی دفاتر میں ٹیلی فون آپریٹر اور ریسپشنسٹ کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

بعد ازاں 2010ء سے 2016ء تک اس نے اپنے طور پر شوہر کے ساتھ مل کر شہریوں کو بیرون ملک بھجوانے کا کام شروع کیا، جس کے لیے انہوں نے کیریئر لنک ڈیولمپنٹ کنسلٹنسی کے نام سے ایک کمپنی قائم کی۔ اس دوران عاصمہ نے درجنوں نوجوانوں سے بیرون ملک بھجوانے کے لئے کروڑوں روپے وصول کیے اور پھر اپنے خلاف مختلف انکوائریاں اور مقدمات درج ہوتے ہی، خاموشی سے منظر عام سے غائب ہوگئی ۔

عاصمہ رفیق کے حوالے سے ایف آئی اے اور متاثرہ شہریوں سے ملنے والی معلومات کے مطابق عاصمہ نے 1997ء میں ڈاکٹر انصاری ہومیو پیتھک کالج میںایڈمیشن حاصل کیا۔ تاہم چونکہ واجبی تعلیم رکھنے والی اس لڑکی کے خواب بڑے تھے، اس لئے اس نے تعلیم کے ساتھ ہی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے مختلف دفاتر میں ملازمت کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان ملازمتوں کے دوران اسے پبلک ڈیلنگ کا اچھا خاصہ تجربہ حاصل ہوا۔ عاصمہ نے 1997ء سے 2001ء تک ڈاکٹر انصاری ہومیو پیتھک کالج میں تعلیم حاصل کی اور ڈی ایچ ایم ایس کی سند حاصل کی۔ اس نے 2001ء میں ہی کراچی یونیورسٹی سے کامرس میں بی کام مکمل کیا۔

اسی دوران عاصمہ، کنسلٹنسی اور اسکلز ڈیولپمنٹ کے کئی نام نہاد دفاتر میں کام کرکے اچھا خاصہ تجربہ حاصل کرچکی تھی۔2010ء کی دھائی میں وہ رفیق باوانی نامی شخص سے شادی کے بعد اپنا سیٹ اپ چلانے لگی۔ اس کام میں عاصمہ کے شوہر رفیق باوانی نے اس کی بھرپور مدد کی اور اس کو دفتر قائم کرکے دیا۔ چونکہ 2008ء سے 2014ء تک ملک کے حالات کے باعث نوجوانوں کی اکثریت امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک جانے کے لئے بیتاب تھی۔ چنانچہ اس وقت ایجوکیشن کنسٹلنسی کے نام پر نوجوانوں کو تھرڈ کلاس اور بوگس قسم کے غیر ملکی تعلیمی اداروں میں جز وقتی تعلیم کے لئے، ان ملکوں میں تعلیمی ادارے قائم کرنے والے مالکان نے بھی یہی دھندہ شروع کر دیا تھا۔ ایسے ڈی کیٹیگری کے تعلیمی اداروں میں ہفتے میں چند گھنٹوں کی کلاسوں کے عوض اچھی خاصی فیس بٹورنے کے لئے پاکستان سمیت کئی ملکوں میں ایجنٹ سرگرم ہوگئے، جو اسکائپ پر ان نوجوانوں کی آن لائن میٹنگ کروانے کے بعد ان کے لئے داخلے کی دستاویزات اور ویزوں کے اسپانسر شپ حاصل کرتے۔

اس دوران بھی عاصمہ نے اپنی پروفیشنل تعلیم کا بڑا خیال رکھا اور 2014ء میں انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرکے رافلز ایجوکیشن نیٹ ورک کے ساتھ ایجوکیشن کنسلٹنٹ کی حیثیت سے منسلک ہوگئی۔ اس سے قبل عاصمہ نے سوورین ایجوکیشن نیٹ ورک کے ساتھ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

کچھ آمدنی کے بعد میاں بیوی نے دیکھا کہ اس دھندے میں سرمایہ کاری مزید کروڑوں کی آمدنی دے سکتی ہے، تو انہوں نے باقاعدہ طور پر گلشن اقبال کے علاقے میں واقع دیوا اکیڈمی کے قریب ایک بنگلے میں 11 برس قبل برس قبل کیریئر لنک ڈیولپمنٹ کے نام سے ایجوکیشن اینڈ امیگریشن کنسلٹنسی کا کام شروع کیا۔ اس دوران ملزمہ گلشن اقبال بلاک تین اور گلستان جوہر میں واقع روفی لیک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر رہی۔ انہی دنوں ورڈ پریس پر مفت بنائی گئی ایجنٹوں اور ڈی گریڈ تعلیمی اداروں کے نیٹ ورک کی ’’ آئرش کالجز نیٹ ورک ‘‘(https://irishcollegenetwork.wordpress.com/) پر عاصمہ کو پاکستان میں اپنا مرکزی ایجنٹ ظاہر کیا گیا کہ عاصمہ، آئرش کالجوں کے لیے پاکستانی طالب علموں کے داخلے کے لیے مجاز ایجنٹ ہے۔ کراچی میں کیریئر لنک ڈیولپمنٹ کے نام سے کنسلٹنسی چلاتی ہے۔

اس دوران عاصمہ کے توسط سے نیوزی لینڈ، برطانیہ،آئر لینڈ سمیت کچھ اور ممالک میں متعدد نوجوان 10سے 15لاکھ روپے دے کر چلے گئے تھے، جس سے عاصمہ کو بھاری منافع ملا۔ چونکہ یہ نوجوان چند گھنٹے کی کلاسیں لینے کے علاوہ بچنے والے وقت میں وہاں جاب بھی کررہے تھے، اس لئے ایسے نوجوانوں نے بیرون ملک سے اپنے دیگر دوستوں اور عزیزوں کو بھی عاصمہ سے رابطے کرنے کے مشورے دینے شروع کردیئے تھے۔

بعد ازاں ان میں سیمتعدد نوجوانوں کو ان کی تعلیمی مدت پوری ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر رہنے پرقانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد انہیں ڈیپورٹ کردیا گیا ۔جبکہ یورپ، امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور آئرلینڈ میں 2016ء اور 2017ء میں انسانی اسمگلنگ کا سبب بننے والے ان ’ڈی گریڈ‘ اور بوگس تعلیمی اداروں کے خلاف کریک ڈائون کے بعد عاصمہ کراچی کے درجنوں شہریوں کی بھاری رقوم اور ان کی دستاویزات سمیت منظر عام سے غائب ہوگئی۔ اس وقت بھی عاصمہ کی جانب سے چلائے جانے والے ٹوئٹر اور آئرش کالج نیٹ ورک کے پیجز پر اس کے 2014ء کے آخری پیغامات موجود ہیں۔

ان پیغامات میں عاصمہ نے خود کو بیرون ملک خصوصی طور پر 9 ممالک بشمول برطانیہ،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور یورپ میں شہریوں کو بھجوانے کی ماہر کنسلٹنٹ ظاہر کیا ہوا ہے۔ اور اس انڈستری میں اپنا 9 سالہ تجربہ بھی شہریوں سے شیئر رکھا ہے۔
بعد ازاں 2016ء اور 2017ء میں عاصمہ کے خلاف ایف آئی اے حکام کو لاکھوںروپے سے محروم ہونے والے متعد متاثرین کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ جن پر تحقیقات میں عاصمہ کے خلاف 2017ء میں تین مقدمات قائم ہوئے، جبکہ دیگر انکوائریاں اس کے علاوہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق ملزمہ عاصمہ نے نیوزی لینڈ میں اپنی اچھی سیٹنگ بنائی ہوئی تھی۔ مقدمات درج ہونے کے بعد عاصمہ ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکی۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ عاصمہ ممکنہ طور پر اس وقت نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں قائم اے ڈبلیو آئی نامی ادارے میں ریجنل مارکیٹنگ ہیڈ کے طور پر کام کررہی ہے۔