امت رپورٹ :
معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ نے اپنے ایک تازہ انگریزی مضمون میں تصدیق کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق مودی کے پلان کا جنرل باجوہ اور عمران خان کو علم تھا۔ دونوں کو دورہ امریکہ کے موقع پر اس سے آگاہ کردیا گیا تھا۔
1954 سے پاکستان کے امریکہ کی طرف جھکائو اور سقوط ڈھاکہ سے لے کر ملک کے موجودہ حالات کے اسباب پر بھی آصف ہارن راجہ نے روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مضمون کے چشم کشا ترجمہ شدہ اقتباسات نذر قارئین ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ لکھتے ہیں ’’جب پانچ اگست دو ہزار انیس کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو غیر قانونی طور پر دہلی میں ضم کیا تو یہ وہ وقت تھا جب ہمیں مقبوضہ کشمیر کو فاشسٹ اور نسل پرست بھارت کے ظالمانہ چنگل سے آزاد کرانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے تھی۔ رگ کٹ جانے کے بعد کسی اور چیز سے فرق نہیں پڑتا۔ کم از کم ہمیں مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے کچھ دوسرے شورش زدہ علاقوں میں خفیہ کارروائیاں تیز کر دینی چاہیے تھیں۔ لیکن سابق رہنمائوں کی طرح عمران خان اور جنرل باجوہ نے کشمیر کے تنازع سے متعلق اپنے پیشروئوں کی معذرت خواہانہ اور دفاعی پالیسی کو جاری رکھا۔
دراصل جولائی دو ہزار انیس میں عمران خان اور جنرل باجوہ کے دورہ واشنگٹن کے دوران ٹرمپ اور پینٹاگون کو ایک خاموش انڈر اسٹینڈنگ دی گئی تھی۔ جبکہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا مقصد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حفاظت کی ضمانت دینا تھا۔ عمران خان اور جنرل باجوہ دونوں کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے سے متعلق مودی کے منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ لوگوں کو کنٹرول کریں۔ جنرل باجوہ کو جو اسی سال نومبر میں ریٹائر ہو رہے تھے۔ پینٹاگون کی طرف سے اکیس توپوں کی سلامی، اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ انہوں نے رضامندی دی تھی۔ جس پر فیصلہ کیا گیا کہ انہیں تین سال کی توسیع دی جائے گی۔
یہ سب سے زیادہ افسوسناک ہے کہ ہمارے نام نہاد رہنمائوں نے سسکی بھرے بغیر بھارت کو مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرنے کی اجازت دی۔ سفاک بھارت کو سب سے بڑی فوجی چھائونی اور کھلی جیل میں بند کشمیریوں کی نسل کشی اور عصمت دری کرنے کی اجازت دی۔ مودی کو کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے دیا۔ غیر مسلموں کو زمینیں خریدنے اور مسلمان کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے کی اجازت دی گئی۔ اور اب غیر ملکی کاروباری ٹائیکونز کے ساتھ جی ٹوئنٹی کو بھی وادی کشمیر میں سرمایہ کاری، کاروباری سلطنتیں اور ریزورٹس بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی افسوسناک حالت، ان سے بے وطن اور دوسرے درجے کے شہری کے طور پر کیا جانے والا سلوک، ہماری اس بے حس اشرافیہ کو پریشان نہیں کرتا جو پیسہ کمانے میں مگن ہے۔ اقتدار کے حصول کی لڑائی میں انہیں پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنے سے متعلق بھارت کے خطرناک عزائم کی بھی کوئی فکر نہیں‘‘۔
مضمون میں پی ٹی آئی کے اقتدار کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’پی ٹی آئی نے اپنے پونے چار سالہ دور میں سابق حکومت پر الزام تراشی اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ معیشت کو بہتر بنانے یا اہم اصلاحات کرنے یا منقسم قوم کو اکٹھا کرنے یا کشمیریوں کے دکھ کو کم کرنے پر بہت کم دھیان دیا گیا۔ تب ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی ایک پیج پر تھی۔ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے سی پیک کو منجمد کرنا ایک مجرمانہ فعل تھا اور پاکستان کے سب سے قابل اعتماد دوست چین کو پریشان کرنے کی قیمت چکانی پڑی‘‘۔
ملک کے موجودہ بحران کے حوالے سے آصف ہارون لکھتے ہیں ’’پی ڈی ایم کے قائدین کے ماضی کے طرز عمل اور خراب کارکردگی سے قطع نظر وہ کم ازکم ڈوبتے جہاز کو بچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ سب سے بڑی اور مقبول جماعت انتشار پھیلانے، عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال میں شدت لانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اس کی واحد فکر، فوری الیکشن اور اقتدار میں واپسی ہے۔ ملک کے متعدد بحران،2011کے بعد سے ایجی ٹیشن اور تصادم کی مسلسل سیاست کا نتیجہ ہیں۔ جس نے دس اپریل دو ہزار بائیس کے بعد نئی بلندیاں طے کیں۔
دوبارہ اقتدار چھیننے کی خواہش میں انہوں نے پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر فوج کی اعلیٰ قیادت کو بدنام کیا اور فوج کے نچلے درجوں میں بغاوت کے جراثیم ڈال کر اس کی چین آف کمانڈ کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب کسی بھی طریقے سے عمران خان کو دوبارہ بااختیار بنانے کی دیوانہ وار خواہش میں پاکستان کا نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ بھی اس ڈرامے میں رول ادا کر رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اگر فوج اور عدلیہ کی آخری دفاعی لائنیں ٹوٹ جاتی ہیں تو انہیں اس کی کوئی فکر نہیں۔ یا ملک ایک خونریز خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور موقع پرست بھارت اپنے کولڈ اسٹارٹ نظریے کو فعال کرکے
حساس حصوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جنرل قمر باجوہ کو میر جعفر اور میر صادق کہنے کے بعد، فوج کی ساکھ تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ان عناصر کی توپوں کا رخ اب آرمی چیف جنرل آصف منیر کی طرف ہے۔ انہیں کمزور کرنے کے لئے ہر طرح کے ناگوار القاب دیئے جارہے ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے ماضی کی طرح گندی سیاست میں پارٹی بننے اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے انکار کردیا ہے۔
چند بھگوڑے صحافیوں کے ساتھ بیرون ملک مقیم بعض سابق فوجیوں نے اخلاقیات اور شائستگی کی تمام حدیں پار کر دی ہیں اور اعلیٰ فوجی افسران کے کردار کو داغدار کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس صدی کا سب سے بڑا مذاق یہ ہے کہ دو غیر ملکی فنڈڈ سابق فوجی، میجر ریٹائرڈ حیدر مہدی اور میجر ریٹائرڈ عادل راجہ، اپنے تئیں تمام فوجی جرنیلوں سے زیادہ عقلمند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے اس احمقانہ موقف کو پاکستان میں موجود ناراض سابق فوجیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ جو عمران خان کے سحر میں مبتلا ہیں اور پاکستان کے دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے ان بھگوڑے سابق فوجیوں کی ٹوئٹس اور ویلاگز کو جوش و خروش سے پھیلاتے ہیں‘‘۔
آصف ہارون مزید لکھتے ہیں ’’چند روز پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس بروقت اور گمراہ سابق فوجیوں، سوشل میڈیا اور صحافیوں کے ایک گروپ کے لئے یاد دہانی تھی کہ وہ اپنی روش درست کریں ورنہ سزا کے لئے تیار رہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جس کے لئے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں روزانہ ستّر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جارہے ہیں۔ یہ پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کے خلاف کارروائیوں کے علاوہ ہے‘‘۔
آصف ہارون اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’جنرل آصف منیر نے واضح کیا ہے کہ کسی کو بھی فوجی ہم آہنگی، استحکام اور قومی سلامتی کی ریڈ لائنز عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی قیادتوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے ہیں۔ وہ فوج میں اصلاحات کے لئے تیار ہیں۔ سادگی اور کفایت شعاری پر یقین رکھتے ہیں۔ میرے عاجزانہ حساب سے وہ جنرل ضیاء الحق ٹو ہیں‘‘۔
مضون میں ایک جگہ آصف ہارون لکھتے ہیں ’’پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کا تنازعہ ایک خطرناک مرحلے پر پہنچ گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے خلاف عدالتی سرگرمی نے پی ڈی ایم کو مزید متحد کر دیا ہے۔ شہباز شریف اور ان کے اتحادی، پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وزیراعظم خاصے پراعتماد دکھائی دے رہے ہیں کہ انہوں نے ستائیس اپریل کی شام اعتماد کا ووٹ لیا۔
چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی جانب سے تیزی کے ساتھ بل منظور کیے جارہے ہیں۔ امپورٹڈ حکمرانوں کے الزام والی حکومت نے نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ بلکہ انتہائی مشکل حالات میں اور اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے بغیر ریاستی امور کو بھی چلا رہی ہے۔ اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پورے کئے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے قرضے حاصل کئے۔ سی پیک کو دوبارہ شروع کیا۔ روس کے ساتھ گندم اور خام تیل کے معاہدے کو عملی جامہ پہنایا۔ انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں۔
غریب ترین طبقے میں مفت گندم کے تھیلے تقسیم کئے۔ تاہم اس سارے سیناریو میں سب سے اہم مسئلہ پنجاب میں انتخابات کا ہے۔ جسے سپریم کورٹ نے چودہ مئی کو کرانے کا حکم دے رکھا ہے۔ تاہم بار کونسل اور پی ڈی ایم اکتوبر میں ایک ہی تاریخ پر بیک وقت ملک بھر میں انتخابات کی خواہشمند ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی اس سے قبل الیکشن منعقد کرانے کے لئے بے چین ہے۔ کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ عمران خان غیر ملکی فنڈنگ یا توشہ خانہ کیسز میں نااہل ہوجائیں گے۔ اس کے نتیجے میں پارٹی ناکارہ ہوجائے گی‘‘۔