تحریک انصاف نے پابندی کے لوازمات پورے کر دیئے؟

اسلام آباد (سجاد عباسی ) تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی ہٹ دھرمی ۔نا پختہ کاری۔اور فہم سے عاری جارحانہ سیاست کے باعث پارٹی پر پابندی لگوانے کے تمام لوازمات مکمل کر لیے ہیں اور بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے غور وخوص کے ساتھ "پیپر ورک” بھی شروع کردیا گیا ہے تاہم یہ معاملہ جب بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آیا تو اختلاف رائے کے باعث فی الوقت اسے التوا میں رکھا گیا ہے۔اجلاس کے شرکاء کی قابل ذکر تعداد کا موقف تھا کہ بطور سیاسی جماعت تحریک انصاف پر پابندی مسئلے کا حل نہیں ، دہشت گردی اور انتشار میں ملوث عناصر کوقانون کے کٹہرے میں لا کر کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔

واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون 1997 کے کی شق 11 بی کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت پر ریاست مخالف اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنیاد پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے جس کے لئے صرف کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ کسی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے لئے کیا شرائط درکار ہیں، اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت پر مکمل پابندی کے لیے ضروری ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے تحت اس جماعت کو تحلیل کر دیا جائے کیوںکہ اسی صورت میں اس جماعت کے ارکان پارلیمنٹ کی برطرفی ممکن ہو سکتی ہے بصورت دیگر متعلقہ سیاسی جماعت کا وجود برقرار رہتا ہے۔

الیکشن قوانین کے ماہرین کے بقول کسی بھی تنظیم پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فوری پابندی لگانے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس موجود ہے تاہم پابندی عائد کرنے کا طریقہ کار الیکشن ایکٹ 2017 میں بھی واضح طور پر درج ہے۔کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا دوسرا پہلو پارٹی امور چلانے کے لئے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کی صورت میں ہے۔اگر اس حوالے سے ناقابل تردید شواہد مل جاتے ہیں تو الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل 212 کے تحت الیکشن کمیشن یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھجوائے گا جو پندرہ روز کے اندر کے سپریم کورٹ کو ارسال کرے گی جہاں سے پابندی کی توثیق کی جائے گی تاہم عدالت عظمی فریقین کو نوٹس جاری کرنے اور ان کا موقف سننے کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کرے گی۔اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا موقف درست تسلیم کرتے ہوئے متعلقہ سیاسی جماعت کے ملک دشمن سرگرمیوں یا دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت اس پر پابندی عائد کر دیتی ہے تو مذکورہ جماعت کے ارکان اسمبلی ازخود خود نااہل قرار پائیں گے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن میں ممنوعہ یا فارن فنڈنگ کا کیس بھی برسہابرس سے زیر سماعت ہے جبکہ دوسری طرف جماعت کے کارکنوں اور حامیوں کے حالیہ پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے شواہد عالم آشکار ہوگئے ہیں جس میں ریاستی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے وہ بدترین مناظر دیکھنے کو ملے جس کے مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ذرائع کے مطابق قومی سلامتی سے متعلق اداروں اور تحقیقاتی حکام کے پاس ویڈیوز اور آڈیوز کی صورت میں ناقابل تردید شواہد کا انبار ہے جس میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج کے نام پر جی ایچ کیو ،کور کمانڈر ہاؤس۔ریڈیو پاکستان کی عمارت سمیت کئی اہم اور حساس ترین تنصیبات پر حملے کر کے انہیں جلا دیا گیا یا شدید نقصان پہنچایا گیا۔مبصرین کے مطابق گذشتہ دو روز سے شر پسندی اور دہشتگردی کے جاری کھیل پر پاک فوج کے ترجمان کا ردعمل حالات و واقعات کی درست عکاسی کرتا ہے۔

اگرچہ تحریک انصاف کے بعض رہنما بعد از خرابی بسیاراسے "نامعلوم شر پسندوں ” کی کارروائی قرار دے کردامن چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں، تا ہم یہ سب کچھ کس کی ایما پر کیا گیا اور کون شر پسندوں کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے حوالے سے اکساتا رہا اس کی تفصیل نام بہ نام اور مقام بہ مقام متعلقہ اداروں کے پاس مکمل شواہد کے ساتھ موجود ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف پابندی کے لئے قانونی کارروائی آگے بڑھائی جا سکتی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں کی اکثریت بطور جماعت تحریک انصاف پر پابندی کے عمل کو درست خیال نہیں کرتی مگر سرکاری ذرائع اس حوالے سے غوروخوص کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے۔