زمان پارک پر ویرانی کے ڈیرے، بدھ کو صبح سے شام تک چولہا نہیں جلا

لاہور سےنواز طاہر کی رپورٹ

کئی ماہ تک بریانی ،پلاﺅ اور قورمے کے ساتھ ساتھ بنوں کی بڑی بڑی روٹیون اور ان کے تووں کی آوازوں اور عمران خان کے ترانوں سے گونجنے والے زمان پارک کے اندر واقع گول باغ ( زمان پارک) میں بدھ کی سارا دن اور شام تک چولہا نہیں جلا ، رات دس بجے کے قریب دس سے بارہ افراد کیلئے پانچ اینٹوں کے کھلے چولہے پر ایک چھوٹی دیگچی میں سالن بنایا گیا اور روٹیاں بھی ’درآمد‘کی گئیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو زمان پارک میں عمران خان کی حفاظت کیلئے بسائی جانے والی’ عمران خان قومی دفاعی بستی‘ میں مقیم ہیں اور عمران خان کی سیکیورٹی کیلئے مختلف صوبوں اور اضلاع سے یہاں آکر سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے والے رضا کار ہیں اور وسیع پارک میں جہاں کیمپ لگانے اور کرسی رکھنے کیلئے جگہ نہیں تھی وہاں بس انہی کے دو کیمپ سلامت رہ گئے ہیں جنہیں تیز بارش اور آندھی و طوفان  سمیت موسمی اثرات بھی مات نہیں دے سکے۔ ان دنوں یہاں پنجاب کے باہر سے آئے چند گارڈ یہاں موجود ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ گلگت،، بلتستان ، دیر اور مالاکنڈ اور وزیرستان وغیرہ  سے یہان آئے ہیں ، ان میں سے کچھ رضاکار پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈہ پور کے قریبی اور قابلِ اعتماد کارکن ہیں اور پہلے روز سے یہاں انتہائی خوشحالی کے دن گزار رہے تھے لیکن بدھ کو سارا دن وہ کھانے پینے سے بھی محروم رہے یہاں تک کہ ان میں سے تمباکو نوشی کرنے والے بھی سگریٹ کی عدم دستیابی جیسی مشکلات کا شکار رہے البتہ نسوار کچھ کارکنوں کے پاس ضرور اسٹاک میں موجود تھی ۔

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

اب عالم یہ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران نو مئی کو جناح ہاﺅس سمیت مختلف تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں گرفتاریوں کے باعث اس بستی میں جیسے الف لیلہ کی رومانوی داستان کا ظالم جادو گر یا جِن گزر چکا ہے ۔ بدھ کو خاص طور پر پولیس نے زمان پارک جانے والے راستوں پر ناکہ بندی کی تو ان پندرہ بیس رضاکاروں کا دانا پانی بھی ایک طرح سے بند ہوگیا ۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کارکنوں کو گرفتار کرنے کی کوشش یا ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی ان کارکنوں نے ایسی شکایت کی کہ انہیں کسی نے پکڑنا چاہا ۔ اس کے برعکس سیکیورٹی اداروں کے کچھ اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ ابھی بھی زمان پاک میں چالیس سے پچاس ایسے خطرناک افراد موجود ہین جن کی گرفتاری ازحد ضروری ہے لیکن وہ اسی علاقے مین چھپ گئے ہیں ، ممکنہ طور پر کچھ عمران خان کے اپنے گھر کے اندر بھی موجود ہیں ۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی مرکزی فورس میں سے اور بلووں میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد سے کی جانے والی گرفتاریوں میں ایک سو تیس سے زائد ایسے افراد بھی حراست میں لئے گئے ہیں جو پاکستانی نہیں بلکہ  افغانستان کے شہری ہیں اور ماضی میں ان کا تعلق کالعدم جماعت سے رہا ہے ۔ زیادہ تر کو زمان پارک کے ارد گرد سے ہی گرفتار کیا گیا ہے ،

خالی کرسیاں،کھلا میدان اور صرف دو انسانی وجود 

بدھ کی شب بھی ایسی ہی گرفتاریوں کیلئے علاقہ کارڈن آف کیا گیا تھا ۔ اسی ناکہ بندی کے دوران  عمران خان نے اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کیا تھا تاہم نگران حکومت کے ویر اطلاعات عامر میر نے اس کی نفی کرتتے ہوئے واضح کیا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کا کوئی پلان نہیں بنایا گیا اور اس ضمن میں عمران خان کا دعویٰ غلط ہے اور احتیاطی چیخ و پکار‘ کا مقصد بھی کچھ اور ہے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے کارکنوں کے بیان کے بعد بھی لاہور سے کوئی کارکن زمان پارک نہیں پہنچا اور نہ ہی کسی ناکے پر پولیس اور کسی کارکن میں بحث و تکرار کی اطلاع ملی ،البتہ کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کا پولیس کے کچھ اہلکاروں کے ساتھ تکرار ضرور دیکھا گیا ،پولیس کے مطابق یہ لوگ بنیادی طور پر پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور سوشل میڈیا کی آڑ لیتے ہیں ، پولیس نے کارڈن آف کے دوران بھی میڈیا کا داخلہ محدود کیا تھا لیکن زمان پارک میں معمول کے فرائض انجام دینے والی میڈیا کی گاڑیوں اور کارکنون کی طرف سے پولیس کی منفی رویے کی کوئی شکایت نہیں کی گئی بلکہ کچھ گھنٹے ایسے بھی گزرے جن میں میڈیا کارکنوں کے ماسوا زمان پارک مین عمران خان کی رہائش گاہ والی گلی اور ملحقہ گلی میں کوئی دوسرا شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا ، مرشد چوک پر بھی کوئی کارکن نہیں تھا ، کیمپوں میں ہو کا عالم تھا جیسے سالہا سال سے کسی کا ادھر سے گزر نہیں ہوا ۔ بدھ کا یہ دن محدود کارکنوں کیلئے بہت بھاری تھا ۔

اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا؟جہاں چند روز پہلے تک کھوے سے کھوا چھلتا تھا،وہاں پیڑ کے نیچےچند رضاکار مہمانوں کے منتظر

  
رات دس بجے کے قریب زمان پارک کی طرف جانے والے تمام راستہ کھل گئے ، دس بج کر پانچ منٹ پر پی تی آئی کے سوشل میڈیا کارکنوں کی آمد شروع ہوئی جنہوں نے مزید ساتھیوں کے پہنچنے پر کچھ پلاننگ کی، ساڑھے دس بجے تک روایتی میڈیا کے علاوہ پچاس سے ساٹھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پہنچ چکے تھے جن کا یہ دعویٰ درست ثابت ہورہا تھا کہ ان کی اطلاعات کو موثر سمجھا جاتا ہے۔ جیسے وہ سوشل میڈیا متحرک ہوا تو پون گھنٹے کے اندر ایک سو سے زائد افراد جمع ہوچکتے تھے ، کچھ ایسے افراد بھی تھے جو بیوی اور بچوں کے ساتھ آئے، کچھ لمحے رُکے صورتحال کا جائزہ لیا اور نعرے لگائے بغیر رخصت ہوگئے ، انہیں سوشل میڈیا والے کچھ لوگ گائیڈ بھی کررہے تھے، ان کا خیال تھا کہ پولیس یہاں آنے والوں کو ٹریپ کررہی ہے اور یہاں سے باہر جانے پر ملحقہ سڑکوں پر گرفتار کرلے گی لیکن اس وقت تک ملحقہ سرکوں پر بھی پولیس نہ ہونے کے برابر تھی، ایسی اطلاعات گردش کررہی تھیں کہ زمان پارک کی تلاشی ہونے والی ہے لیکن کچھ ذمہ دار پولیس اہلکارون کا کہنا تھا کہ ایسی تلاشی کا فی الحال کوئی حکم نہیں ۔ پولیس ذرائع کے مطابق ایسے مطلوب کارکن یہاں موجود ضرور ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بھی امین گنڈا پور سے ہے ۔
رات گئے بکھرے کیمپ ، ٹینٹوں اور مختلف کونوں میں پڑی دو خالی دیگوں پر تیز ہوا سے اڑنے والی مٹی کی تہہ جمع ہورہی تھی اور چھوٹی دیگچی میں تیار کئے گئے سالن اور ’درآمدی ‘ روٹیوں کے گرد دس افراد کا گروپ بھوک کو شکست دینے کیلئے کوشاں تھا ، اس گروپ کو جسے بڑے بڑے نامور افراد اور معروف خواتین رہنما پہلی فرصت میں ا علیٰ معیار اور درجے کی اشیائے خورو نوش فراہم کرنا ایک اعزاز اور براہ راست عمران خان کو ہی پیش کرنا سمجھتی تھیں۔