میرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا،میرا رنگ روپ اجڑ گیا

عاشر عظیم :
کینال روڈ پر زمان پارک میں واقع اپنے سات کینال کے وسیع و عریض گھر میں 71 سالہ بوڑھا انقلابی افسردہ بیٹھا ہے۔ بوٹکس انجکشنوں کے متواتر استعمال کے باوجود ڈھلکتے پپوٹوں اور گوشت کی تہہ سے ڈھکی اس کی نیم بند آنکھوں کے کنارے اب اکثر نم رہتے ہیں۔ وہ جس المیہ سے دو چار ہے وہ بڑا دردناک ہے۔

پہلے پورے ملک کی حکمرانی اس سے چھن گئی۔ پھر دو صوبوں کا اقتدار جاتا رہا اور اب زمان پارک کی حکمرانی بھی اس کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ ابھی دو ماہ پہلے کی بات ہے۔ اسی زمان پارک میں پولیس نے اسے گرفتار کرنے کی سترہ کوششیں کی تھیں۔

لیکن اس کی ’’ٹائیگر فورس‘‘ نے یہ ’’حملے‘‘ پسپا کر دیئے تھے۔ وزیرآباد حملے کے بعد پچھلے چھ ماہ سے بوڑھا انقلابی اسی زمان پارک کے قلعے میں مقیم ہے۔ جہاں دن رات اس کی تعریف پر مبنی ترانے ڈی جے سائونڈ پر چلتے تھے۔ گھر کے باہر کینال روڈ پر اس کی ٹائیگر فورس نے خیمے لگا رکھے تھے۔ جبکہ زمان پارک گرائونڈ کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔ پولیس کی کیا مجال تھی کہ ادھر پھٹکتی۔ لیکن سانحہ 9 مئی نے سب کچھ بدل ڈالا۔

بوڑھے انقلابی کی گرفتاری کو سرخ لکیر قرار دینے والی ٹائیگر فورس اب رفو چکر ہوچکی۔ ڈی جے سائونڈ پر مرگ طاری ہے۔ جہاں خیمہ بستی آباد تھی۔ وہاں اب ایسا سکوت ہے کہ رات کو جھینگر کی آوازیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ قصہ مختصر بوڑھے انقلابی نے اپنے گرد جو انسانی ڈھال بنا رکھی تھی، وہ ختم ہو چکی۔ زمان پارک اور بوڑھے انقلابی کے گھر کا مرکزی گیٹ مکمل طور پر انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔ یعنی پولیس جب چاہے کان سے پکڑ کر لے آئے۔ اقتدار کی راہ داریوں میں ہونے والی سرگوشیاں سننے والوں کے بقول اب یہ سوچ بچار ہو رہی ہے کہ پہلے بوڑھے انقلابی کو گرفتار کیا جائے یا پھر اس کی اہلیہ کو۔ یا دونوں کو ایک ساتھ حراست میں لیا جائے۔

مرشد اور مرید دونوں القادر ٹرسٹ کیس میں مطلوب ہیں۔ آج منگل کو بوڑھے انقلابی نے اپنے ’’مرشد‘‘ کے ساتھ نیب راولپنڈی کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اس سے پہلے ہی اس نے دہائی دینی شروع کر دی ہے کہ ’’مجھے دوبارہ گرفتار کئے جانے کا اسّی فیصد امکان ہے‘‘۔ دیکھنا ہے کہ بوڑھے انقلابی کا یہ خدشہ درست نکلتا ہے یا ابھی حکومت چوہے بلی کا کھیل مزید جاری رکھے گی۔

بوڑھے انقلابی کے اعصاب پر گرفتاری کا خوف اگرچہ پچھلے ایک برس سے طاری ہے، جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اسے اقتدار سے باہر کیا گیا تھا۔ تاہم کچھ عرصہ پہلے ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد سے اس کا یہ خوف باقاعدہ ’’فوبیا‘‘ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ اس خوف نے اب بوڑھے انقلابی کو ایک خزاں رسیدہ بنا دیا ہے۔ اس کے ہر عمل سے اس خوف کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ خوف کبھی انتہائی درجے کی جھنجھلاہٹ میں بدل جاتا ہے۔ ابھی دو دن پہلے کارکنوں سے اپنے لائیو ویڈیو خطاب کے دوران لائٹ چلے جانے پر اس کے منہ سے گالی نکل گئی۔ جو براہ راست ہزاروں لوگوں نے سنی۔ ان میں خواتین اور بچے سب شامل ہیں۔

ادھر بوڑھے انقلابی کو کسی نے مت دی ہے کہ دوبارہ ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پروپیگنڈہ کرو۔ اس حکمت عملی کے تحت اس نے عالمی میڈیا کو پے در پے انٹرویوز دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس کے ہر انٹرویو کا لب لباب یہی ہوتا ہے ’’میں لٹ گیا، میں مرگیا، مجھے بچالو‘‘۔ ساتھ ہی وہ اپنی کھال بچانے کے ہر پہلو پر غور کر رہا ہے۔ اس میں رضاکارانہ مائنس ون کا آپشن بھی شامل ہے۔

رات کا دل کی افسردگی سے گہرا تعلق ہے۔ شاید رات کے کسی پہر مایوسی اور ناامیدی میں گھرے بوڑھے انقلابی کا دل ایک لمحے کے لئے مارا ماری کی اس سیاست سے اچاٹ ہوگیا ہو۔ تب ہی اس نے یہ غیر متوقع پیشکش کی کہ ’’میں مائنس ون ہونے کے لئے تیار ہوں‘‘۔

لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ بہت دیر ہو چکی ہے۔ اب مائنس ون ہوا بھی تو سزا کے ساتھ ہوگا۔ ملک کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت دو ٹوک کہہ چکی ہے کہ سانحہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے گا۔ لہٰذا ’’چی گویرا ثانی‘‘ جمع خاطر رکھے۔ اب یوں آسانی سے اس کی جان نہیں چھوٹنے والی۔

اصل سوال یہ ہے کہ گمراہ کن نعروں کے سحر میں آکر اس کے پیچھے چلنے والے معصوم نوجوانوں کا کیا بنے گا؟ جنہیں ’’جہاد‘‘ کے نام پر اکساکر سانحہ 9 مئی برپا کرانے والا اب کہہ رہا ہے کہ اسے تصاویر اور ویڈیوز دی جائیں۔ وہ خود ان شرپسندوں کو قانون کے حوالے کرے گا۔ یہ ستم ظریف اسے راہبر سمجھ بیٹھے اور اپنے راستے سے دربدر ہوگئے۔ جذبات کی رو میں بہہ جانے والے ان پیروکاروں کو حقیقت کا اندازہ تب ہی ہوجانا چاہیے تھا جب مٹھی بھر تارکین وطن نے اس کی خوشنودی کی خاطر مسجد نبویؐ کا تقدس پامال کیا تھا۔ آخرت اور دنیا، دونوں کے لئے گھاٹے کا سودا کرنے والوں کی نوکریاں گئیں اور جیل میں ڈالے گئے۔ لیکن ان کے محبوب لیڈر نے انہیں پلٹ کر نہیں پوچھا۔

بھلا ہو وزیراعظم کا کہ انہوں نے ذاتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے سعودی حکام سے بات کی اور انہیں جیلوں سے نکلوایا۔ ان میں سے کتنے ہیں، جنہوں نے رہائی کے بعد اپنے اصلی محسن کا شکریہ ادا کیا؟

معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے کئی دہائیوں پہلے کہا تھا ’’ان لیڈروں سے بچو جو ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کرسکتے۔ جن کا اپنا کریکٹر بے حد پست ہوتا ہے۔ وہ سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لئے نکلتے ہیں‘‘۔