نواز طاہر:
تحریک انصاف کے پنجاب میں پہلے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار ان دنوں کا خاموش ہیں اور ان کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں واپس مسلم لیگ (ن) یا ق لیگ میں جاسکتے ہیں۔ جبکہ وہ پی ٹی آئی کے واحد اہم رہنما ہیں، جن کے خلاف 9 مئی کے حوالے سے براہ راست کوئی سخت عمل ریکارڈ پر ظاہر نہیں ہو رہا۔
واضح رہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں اپنے والد سردار فتح محمد بزدار کے حلقے سے وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پہلی بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور انہیں وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ لیکن انہیں مقبول وزیراعلیٰ کے بجائے ڈمی وزیراعلیٰ قرار دیا جاتا رہا۔ جبکہ وہ خود بھی بحیثیت وزیراعلیٰ اپنے سے پہلے وزرائے اعلیٰ کی طرح عوامی مقبولیت اور مختلف حلقوں میں جگہ پیدا کرنے کے بجائے خاموش طبع اور الگ تھلگ ہی رہے اور ان کے اپنے ہی قریبی سپورٹر ساتھی ارکان اسمبلی کے حلقوں کی جانب سے انہیں ہٹانے کیلیے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروائی گئی اور چوہدری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے اور ساتھ ہی ان کے خلاف کرپشن کے الزامات بھی سامنے آئے۔ پہلی بار کسی وزیراعلیٰ کا کوئی فرنٹ مین سامنے آنے کے بجائے یہ انکشاف ہوا کہ وہ خود مبینہ طور پر اپنے پارٹی لیڈر اور وزیراعظم (سابق) عمران خان کی اہلیہ کے فرنٹ مین تھے اور ان میں فرح گوگی نام کی کاروباری خاتون رابطہ کار تھی۔
عمران خان کی طرف سے اتحادی حکومت کیخلاف احتجاج تحریک اور عسکری حلقوں کے خلاف منظم تحریک کے دوران کچھ عرصہ تک عثمان بزدار منظرِ عام پر رہے، لیکن زیادہ متحرک نہ ہوئے اور مبینہ طور پر انہیں خاص اہمیت بھی نہیں دی گئی۔ البتہ فرح گوگی کے خلاف تحقیقات کے دوران انہیں مختلف اوقات میں پارٹی لیڈر عمران خان کی طرف سے انڈر آبزرویشن رکھا گیا۔
ذرائع کے مطابق سردار عثمان بزدار تین ہفتے قبل آخری بار عمران خان سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد سے وہ اپنے معاملات میں ہی مصروف رہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے ردِ عمل میں ہونے والے 9 مئی کی تخریب کاری میں بھی کسی سرکاری ریکارڈ میں دکھائی نہیں دیئے، بلکہ مزید خاموشی اختیار کرلی اور کچھ بلوچ سابق اراکین اسمبلی سے ملاقات کی جس میں پانچ سے زائد ساتھیوں نے اس عمل سے الگ تھلگ رہنے پر اتفاق کیا۔
ذرائع کے مطابق آبائی علاقے میں ہونے والی اس ملاقات میں سردارعثمان بزدار نے پہلی بار ساتھیوں کے ساتھ شکوہ بھی کیا کہ عمران خان نے ایک جانب انہیں وزیراعلیٰ بناکر بڑا حسان کیا تو دوسری جانب ان پر بننے والے مقدمات میں ان کا ساتھ نہیں دیا اور کسی ایک دن بھی بلا کر حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہدایات ہی جاری کیں اور زیادہ سے زیادہ کارکن لانے کا حکم دیا۔ جبکہ ان کے آبائی حلقے سے مطلوبہ تعداد میں کارکن لانگ مارچ کیلئے اکٹھے کرنا ممکن تھا نہ زمان پارک میں وہ مطلوبہ تعداد جمع کرسکے، جس کی بنیادی وجہ ان کے حلقے کے عوام کا سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا اور بحالی کے کاموں میں مصروف ہونا تھا، لیکن عمران خان یہ جواز تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔
ان ذرائع کے مطابق وزارتِ اعلیٰ سے سبکدوشی کے بعد انہیں کم و بیش روز ملنے والا ’’تعویز‘‘ تو بند ہوگیا اور صرف دو بار مخصوص معاملات میں تنبیہہ کیلئے ہی رابطہ کیا گیا۔
دوسری جانب جنوبی پنجاب سے موصولہ اطلاعات میں قیاس کیا جارہا ہے کہ وہ پہلے بھی جہانگیر ترین گروپ میں تھے اور اب بھی ممکنہ علاقائی اتحاد (جنوبی پنجاب صوبہ محاذ طرز کے اتحاد) کا حصہ بننے کیلئے ان اہم لوگوں کے رابطے میں ہیں، جو جہانگیر ترین کے کچن کیبنٹ کا حصہ کہلاتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک سابق ایم پی اے کا کہنا ہے کہ حالات بدل چکے ہیں اور وہ واپس جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ ہی جائیں جائیں گے۔ بصورتِ دیگر اب ان کی کوئی سیاسی ساکھ یا حیثیت نہیں رہی۔ اس کے برعکس کچھ سابق اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کا قصہ ختم ہوچکا ہے اور وہ صرف اپنی بقا کی جنگ لرنے کیلئے کسی گروپ میں شامل ہوسکتے ہیں اور یہ گروپ جہانگیر ترین کا بھی ہوسکتا یا کہیں اور بھی جاسکتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی میں نہیں رہیں گے۔ اسی دوران لاہور میں کچھ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ سردار عثمان بزدار کسی وقت بھی واپس مسلم لیگ ن یا ق لیگ میں جاسکتے ہیں۔
ان ذرائع کے مطابق وہ بیک وقت وقت دونوں جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور مستقبل کا انحصار مسلم لیگ ن کی قیادت پر ہے۔ البتہ عثمان بزدار سے ذاتی دوستی کے حوالے سے کچھ قریب رہنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سردار عثمان بزدار فی الحال کہیں نہیں جارہے، وہ نہ تو 9 مئی کے واقعات کا حصہ ہیں اور نہ ہی درست سمجھتے ہیں، لیکن وہ پی ٹی آئی سے بھی کہیں باہر نہیں جارہے۔ بلکہ اپنے مقدمات سے نجات کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔
دریں اثنا کچھ ذرائع نے بتایا ہے کہ سردار عثمان بزدار مسلم لیگ ن کے ساتھ مضبوط رابطے میں ہیں اور وہ مسلم لیگ ن میں ہی جائیں گے، وہی ان کا سیاسی گھر ہے اور وہاں قبولیت کے بھی زیادہ اور روشن امکانات ہیں، جب اس ضمن میں سردار عثمان بزدار کے کچھ قریبی ساتھیوں سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کچھ نہیںکہہ جاسکتا۔ تاہم ریلیف کی ضرورت ہے، جہاں سے ریلیف ملے گا وہ وہیں جاسکتے ہیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو وہاں سے وزارتِ اعلیٰ تو ملی لیکن اختیار اور تکریم نہیں ملی۔