حاشر عظیم :
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب۔ غالب نے کہا تھا کہ اگرچہ تمنا بے تاب ہوتی ہے لیکن عشق صبر طلب کام ہے۔ بڑی حد تک سیاست میں بھی یہی کلیہ کارفرما ہے۔ ایک سیاستداں کے لئے انتظار کرنے کا ہنر سیکھنا لازمی ہے۔ بدقسمتی سے سیاست کے میدان میں اترنے والا کرکٹ کا بوڑھا کھلاڑی اس کلیہ سے ناآشنا نکلا۔ نتیجتاً آج انجام سے پہلے وہ انجام کو پہنچ رہا ہے۔
بوڑھے کھلاڑی کے سیاست میں اناڑی پن کے حوالے سے پارٹی کے ایک سے زائد رہنمائوں ، عہدیداروں اور ماضی میں اس کے قریب رہنے والوں سے جو بات چیت ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی سمیت سیاسی بیک گرائونڈ رکھنے والے پارٹی کے چند دیگر اہم رہنما شروع سے ہی بوڑھے کھلاڑی کو یہ سمجھاتے رہے کہ لانگ مارچ یا دوسری کسی مہم جوئی پر توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے اکتوبر تک عام انتخابات کا انتظار کرلیا جائے۔ اور تب تک پرامن جلسے جلوسوں اور عوامی رابطہ مہم کے ذریعے کارکنوں اور ووٹرز کو متحرک رکھا جائے۔
متعدد سروے پہلے ہی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف اوپر دکھارہے ہیں۔ چنانچہ متذکرہ بالا سیاسی حکمت عملی اختیار کرکے آئندہ انتخابات میں آسانی سے کلین سوئپ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے محض چند ماہ صبر کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر لانگ مارچ جیسی مہمات کے نتیجے میں ناصرف کارکنان تھک جائیں گے، بلکہ ریاستی ردعمل سے پارٹی کو نقصان پہنچے گا۔ اور ایسی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ انتخابات ہی ہاتھ سے نکل جائیں۔ لیکن بوڑھے کھلاڑی کو یقین تھا کہ لوگ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ اور یہ کہ جب یہ جنون (کارکنان) سڑکوں پر نکلے گا تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ گھٹنے ٹیک دے گی اور وہ انتخابات کی تاریخ لینے میں کامیاب ہوجائے گا۔
بوڑھے کھلاڑی کی یہی سوچ اس کے متشدد، اضطراری اور دیوانگی کے فیصلوں کا سبب بنی اور پارٹی کے معتدل مزاج رہنما ہاتھ ملتے رہ گئے۔ پارٹی کے ان چند رہنمائوں نے بوڑھے کھلاڑی کو یہ بھی سمجھایا تھا کہ حکومت آخر کب تک الیکشن سے راہ فرار اختیار کرسکتی ہے۔ چھ ماہ ؟ ایک سال ؟ آخر کار ایک روز الیکشن ہونے ہیں اور پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر مخالفین کو چت کردے گی۔ لیکن بوڑھا کھلاڑی انتظار پر آمادہ نہیں تھا۔ اقتدار کے جلد حصول کی اس تمنائے بے تاب کے زیر پہلے اس نے دو لانگ مارچ کئے اور دونوں ناکام رہے۔ پھر اس نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ کرلیا۔ اس کے اس فیصلے کی تائید کرنے والوں میں فواد چوہدری، حماد اظہر اور فرخ حبیب جیسے ناتجربہ کار پارٹی رہنما پیش پیش تھے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے بھی چاہے اپنی وزارت اعلیٰ کو بچانے کے لئے ہی سہی، سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن بوڑھے کھلاڑی کی تمنائے بے تاب کے آگے اس کی یہ کاوش بے سود رہی۔ اس موقع پر چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے یہ تاریخی ٹویٹ کی تھی کہ ’’پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد ہمیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
گزشتہ برس اپریل میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بوڑھے کھلاڑی کے اناڑی فیصلوں نے آج اسے تنہائی کا شکار کردیا ہے۔ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ صف اول کے تقریباً سارے رہنما داغ مفارقت دے چکے۔ کارکنان اور پارٹی سپورٹرز بدترین مایوسی کا شکار ہیں۔ بوڑھا کھلاڑی مکافات عمل کے شکنجے میں ہے۔ اس پر اور اس کے اہم رہنمائوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ کارکنوں کو خوف کا بت توڑ دینے کا درس دینے والے بوڑھے کھلاڑی کے اعصاب پر اب ہر طرح کا خوف غالب ہے۔ زوال بڑی ظالم چیز ہے۔
پولینڈ کے معروف صحافی اور مصنف ریشارد کاپوشنسکی نے ایران کے رضا شاہ پہلوی کے زوال پر اپنی شاہکار تصنیف ’’شہنشاہ‘‘ کے ایک پیرے میں خوف کی بے مثال تشریح ان الفاظ میں کی تھی ’’خوف ایک غارت گر اور حریص جانور ہے جو ہمارے اندر بستا ہے۔ وہ ہمیں لمحے بھر کو یہ بات بھولنے نہیں دیتا کہ وہ موجود ہے۔ وہ ہمیں کھاتا رہتا ہے اور ہماری آنتوں کو مروڑتا رہتا ہے۔ اسے ہر وقت خوراک درکار ہوتی ہے اور ہم اسے نفیس ترین غذائیں مہیا کرتے ہیں۔ اس کی مرغوب خوراک میں مایوس کن گفتگو، بری خبریں، مضطرب خیالات اور بھیانک خواب شامل ہیں۔ بات چیت، بدشگونیوں اور خیالوں کے ہزاروں اجزا میں سے ہم ہولناک ترین اجزا منتخب کرتے ہیں، جو خوف کو سب سے زیادہ پسند آئیں۔‘‘
بدقسمتی سے بوڑھا کپتان آج خوف کی اسی کیفیت سے دوچار ہے ، دہائیوں پہلے جس کی تشریح پولش مصنف نے کی تھی۔
دوبارہ اقتدار کے حصول کی بے تابی میں بوڑھے کھلاڑی نے غلطی کا آغاز پچھلے برس پچیس مئی کو کیا تھا، جب وہ اسلام آباد کو ’’فتح‘‘ کرنے کے ’’مشن امپوسبل‘‘ پر نکلا تھا۔ پشاور میں بائیس مئی کو ہونے والے کور کمیٹی کے اجلاس میں اس کے دائیں بائیں محمود خان، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور دیگر بیٹھے تھے جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ تین روز بعد ’’حقیقی آزادی کی جنگ‘‘ کے لیے وفاقی دارالحکومت کی طرف لانگ مارچ ہوگا۔
اس موقع پر پرویز خٹک وہ واحد پارٹی رہنما تھے، جنہوں نے عمران خان کو اس مہم جوئی سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن خان کے فیصلے کی تائید کرنے والے چاپلوس اور خوشامدی رہنمائوں کی ستائشی آوازوں میں جہاندیدہ سیاستدان کی کمزور آواز دب کر رہ گئی تھی۔ اس کور کمیٹی اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع کے بقول شاہ محمود قریشی نے بھی پرویز خٹک کی تجویز کی نیم دلانہ تائید کی تھی۔ تاہم حتمی فیصلہ چونکہ بوڑھے کھلاڑی کا تھا، لہٰذا پھر خاموشی چھاگئی۔ اس لانگ مارچ کا بنیادی مقصد قومی اسمبلی کی فوری تحلیل اور اگلے عام انتخابات کی تاریخ لینا تھا۔
25مئی کو بوڑھا کھلاڑی اپنی قیادت میں جتھا لے کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا تو توقعات کے برعکس انتہائی کم تعداد میں لوگ اس کے قافلے میں شامل تھے۔ پھر یہ کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے چند ہزار پر مشتمل لانگ مارچ کے راستے مسدود کردیئے تھے۔ شکست صاف دکھائی دے رہی تھی۔ چنانچہ بوڑھے کھلاڑی نے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے کے بعد لانگ مارچ ختم کرکے چھ روز بعد واپس آنے کا اعلان کردیا۔ اس اچانک اعلان پر پارٹی کارکنان بھی حیران رہ گئے تھے۔
ایک بدترین ناکام لانگ مارچ کے چھ دن بعد دوبارہ اسی مشن پر نکلنا یقیناً ایک ناقابل عمل ٹاسک تھا۔ تاہم بوڑھے کھلاڑی کی خواہش تھی کہ جون، جولائی میں ’’حقیقی آزادی‘‘ کے نام پر دوبارہ وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولا جائے۔ ایسے میں پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی جیسے گھاگ سیاستدانوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن آخر کار کور کمیٹی کے اجلاس میں نومبر دوہزار بائیس میں اسلام آباد کی طرف دوبارہ لانگ مارچ کا فیصلہ ہوگیا۔ اس لانگ مارچ کے دوران بوڑھے کھلاڑی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ قصہ مختصر یہ لانگ مارچ بھی بری طرح فلاپ رہا۔ پھر بوڑھے کھلاڑی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد بھی ہوا۔ جس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے اور بتاتا ہے کرکٹ کا کھلاڑی سیاست میں کس بری طرح اناڑی ثابت ہوا۔