نواز طاہر:
پاکستان تحریک انصاف کی چھتری سے اڑنے والے بیشتر پرندوں کو جہانگیر ترین کا آسرا ہے۔ اس حوالے سے با خبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ن لیگ اور پی پی سے پی ٹی آئی میں آنے والے زیادہ تر رہنما بھی پرانی پارٹیوں میں واپسی کے بجائے نئے ممکنہ دھڑا جوائن کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ادھر جنوبی پنجاب کے ’’تائب‘‘ ہونے والے انصافیوں کو گھیرنے کے لیے ن لیگ سے زیادہ پیپلز پارٹی بے تاب ہے۔
واضح رہے کہ نومئی کے پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے ایسے رہنما بھی عمران خان سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں جن کے خلاف توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کے مقدمات درج نہیں اور نہ ہی ان کے گھروں یا دفاتر پر قانونی نافذ کرنے والے کسی ادارے نے کوئی چھاپہ مارا۔ ان میں پنجاب اسمبلی کے سابق رکن اور درگاہ شرق پور شریف کے سجادہ نشین میاں جلیل احمد شرقپوری اور اُچ شریف کے سجادہ نشین و سابق ایم پی اے سید افتخار علی گیلانی بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے سابق ارکان اسمبلی کے جہانگیر خان ترین دھڑے نے لاہور میں باقاعدہ سیاسی ڈیرہ آباد کرلیا اور آئندہ چند روز میں باقاعدہ سیکریٹریٹ بنائے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سابق ارکان اسمبلی کا یہ دھڑا عمران خان سے الگ تھلگ عمران خان کے بعد خود کو بھی باغی گروپ قرار دیتا ہے جس نے پنجاب میں عمران خان کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت بلند کیا تھا۔ مگر چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت بننے کے بعد وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی تھی اور نومئی کے واقعات کے بعد یہ دوبارہ منظم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ جس میں عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروانے والے تمام اراکین شامل ہیں اور ایسے سابق ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جو نو مئی کے واقعات میں شامل اور ملوث نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سخت گیر کارروائیوں میں بھی نمایاں نہیں رہے تھے۔ پ
پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرکے باقاعدہ طور پر صرف سابق ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری نے ہی شمولیت اختیار کی ہے۔ البتہ مرکز میں پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنے والے پیپلز پارٹی میں بھی شمولیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹیوں میں شمولیت کے باقاعدہ دروازے ابھی کچھ عرصہ کے بعد کھلنے ہیں۔
ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی سے علیحدگی احتیار کرنے والے تین گروپ ہیں۔ ان میں سے عمران خان کی پرتشدد اور شدت پسندانہ کارروائیوں میں نمایاں رہنے والا الگ گروپ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی ہوگی اور ان کے مستقبل کا فیصلہ عدالتی فیصلوں کے بعد ہوگا۔ تب تک یہ گروپ کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہوگا۔ دوسرا گروپ ان سابق ارکان اسمبلی پر مشتمل ہے جو پی ٹی آئی میں تو شامل ہوا، مگر پرتشدد کارروائیوں کا حصہ نہیں بنا مگر سیاسی قائدین کے بارے میں انتہائی سخت گیر رویے پر قائم رہا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گروپ میں شامل اراکین کے بارے میں اتحادی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی حالات کے مطابق فیصلے کریں گی اور ان میں سے کچھ افراد کے بارے میں ممکنہ طور پر اتحادی جماعتیں اجتماعی طور پر جائزہ لیں گی کہ انہیں اپنے ساتھ ملانا بھی ہے یا نہیں۔ جبکہ تیسرے گروپ میں وہ الیکٹ ایبلز شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ نصف دہائی کے دوران صرف پارٹی تبدیل کی، لیکن ان میں عین وقت پر پارٹی کے ٹکٹ واپس کرنے والے شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق ایسے لوگوں کے بارے میں معافی کا فیصلہ صرف مرکزی قیادت نے ہی کرنا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق پنجاب کے کچھ حلقوں میں مختلف رہنمائوں کو ایک صفحے پر لانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ تاکہ ان حلقوں میں جہاں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے ضمنی الیکشن میں حکومتی اتحاد کے ٹکٹ پر الیکشن ہارگئے تھے، وہاں سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کا گروپ ایک مضبوط گروپ ہے اس کے سیاسی ڈیرے پر اصل لوگ بھی آئیں گے اور بٹیرے بھی بیٹھیں گے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ دوسری بڑی پارٹیاں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی میں ابھی تو شاہ محمود قریشی، پرویز الٰہی بھی عمران خان کا خلا پر کرنے کے خواہاں ہیں۔