عمران خان :
ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں تحریک انصاف کو فنڈز دینے والے مقامی بزنس مینوں اور کمپنیوں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ جنہیں دو بار فنڈز کے ذرائع آمدنی اور دستاویزات کے لیے نوٹس جاری ہوچکے ہیں۔ جبکہ اب تیسری بار نوٹس کا جواب نہ دینے پر ایف آئی اے کی جانب سے دفعہ 25 کے تحت عدالت سے براہ راست بینکنگ ٹرانزیکشنز کی چھان بین کی اجازت لے کر کارروائی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جبکہ ایف آئی اے کراچی کے مختلف سرکلز میں تحریک انصاف کو ہونے والی فنڈنگ پر جاری تحقیقات میںکافی ثبوت اور شواہد سامنے آنے کی صورت میں بلاتاخیر منی لانڈرنگ کے مقدمات کے لئے منظوری بھی دے دی گئی۔ پی ٹی آئی چیئرمین کے قریبی ساتھی اور حال ہی میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری کا عہدہ چھوڑنے والے اسد عمر کے خلاف اینٹی منی لاندرنگ سرکل میں پہلا مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔ اسی مقدمہ میں بالآخر تحقیقات پارٹی چیئرمین عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہونے کی صورت میں پہنچ سکتی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے گزشتہ برس الیکشن کمیشن کی جانب سے ابتدائی تحقیقات کے بعد مزید کارروائی کے لئے ایک درخواست ایف آئی اے حکام کو ارسال کی گئی تھی۔ جس میں پی ٹی آئی کو ملک سے اور بیرون ملک سے ہونے والی ممنوعہ فنڈنگ کی تفصیلات شامل تھیں۔ اس رپورٹ کی روشنی میں ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں ایک انکوائری شروع کی گئی۔ جس پر انکوائری نمبر 74/2022 کا نمبر الاٹ کرکے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی گئی۔
انہی تحقیققات میں ایف آئی اے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں الگ الگ انکوائریاں جاری ہیں۔ جبکہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں 3 مقدمات بھی درج کئے جاچکے ہیں۔ انکوائری نمبر 74/2022 میں اب تک پی ٹی آئی کے اکائونٹس میں لاکھوں روپے کے فنڈز دینے پر جن کمپنیوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں میسرز سینڈیکیٹ منزل ایکسپورٹ کمپنی، میسرز نوین ایکسپورٹ لمیٹڈ، میسرز یونی برو انڈسٹریز سی ای او، میسرز یونس برادرز، میسرز پاک انجینئرنگ، میسرز آر ایم گلستان انجینئرنگ اینڈ کنسٹرکشن اور میسرز پیور فارما شامل ہیں۔ ان نجی کمپنیوں کی انتظامیہ کو 29 مئی کو دن کے ساڑھے گیارہ بجے ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کے تفتیشی حکام نے اس سے قبل ان کمپنیوں کو 23 ستمبر 2022ء اور 14 اپریل 2023ء کو بھی طلب کیا تھا۔ تاہم انہوں نے نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا۔ ایف آئی اے کی تفتیش سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون کے تحت جس دفعہ کے تحت پوچھ گچھ کیلئے نوٹس دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اسی قانون کی دفعہ 25 کے تحت ایف آئی اے عدالت سے رجوع کرتی ہے کہ انکوائری میں زیر تفتیش افراد تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے اور مطلوبہ ریکارڈ دینے سے گریزاں ہیں۔ جس کے بعد متعلقہ مصدقہ ریکارڈ بینکوں سے حاصل کرنے کے لیے عدالت سے اجازت لی جاتی ہے۔ جس کے بعد بینک ریکارڈ فراہم کرنے کے پابند ہوجاتے ہیں۔
اس صورت میں ایف آئی اے افسران اپنی انکوائری مکمل کرکے مقدمہ درج کرنے کیلئے ثبوت و شواہد پر مشتمل سی ایف آر رپورٹ مجاز حکام کو جمع کرواسکتے ہیں۔ مذکورہ کمپنیوں کے علاوہ تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری اسد عمر کے حوالے سے اسی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی انکوائری میں سے ایک پورشن علیحدہ کرکے ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 02/2023 درج کرلی گئی ہے۔ جس کی تحقیقات ڈپٹی ڈائریکٹر سرکل عبدالرئوف شیخ کی سربراہی میں جاری ہے۔
عبدالرئوف شیخ فناشنل کرائمز اور منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تحقیقات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اس انکوائری میں معلوم ہوا ہے کہ ایک نجی بینک کے عملے نے 15 اپریل 2013ء کو اسد عمر کے گھر سے 3 کروڑ روپے وصول کیے۔
3 مئی 2013ء کو دوبارہ 98 لاکھ روپے وصول کئے گئے۔ یہ دونوں رقوم تحریک انصاف کے اکائونٹ میں جمع کروائی گئیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اسد عمر کے گھر سے آنے والی 4 کروڑ روپے کی نقد رقم کو لیاقت حسین نامی شخص کے شناختی کارڈ پر جمع کروایا گیا۔ جو بینکنگ قوانین کی خلاف ورزی اور بے نامی ٹرانزیکشن کے زمرے میں آتا ہے۔ اسد عمر کو مذکورہ شواہد سامنے آنے پر تین روز قبل نوٹس دے کر پابند کیا گیا تھا کہ وہ گزشتہ روز 25 مئی کو پیش ہوں اور ساتھ ہی ان دونوں ٹرانزیکشنز کے مصدقہ ریکارڈ اور دستاویزات بھی ساتھ لائیں۔
ذرائع کے بقول اگر اسد عمر اس ضمن میں ایف آئی اے حکام کو مطمئن نہ کر پائے تو ان پر اینٹی منی لانڈرنگ، بے نامی ٹرانزیکشن اور بینکنگ قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کرنے کی رپورٹ جمع کروائی جائے گی۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں اسد عمر سے متعلق انکشاف ہوا تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد کے ایک اکاؤنٹ (204418243) میں ذاتی ملازم لیاقت حسین کے شناختی کارڈ پر ابتدائی طور پر تین کروڑ روپے جمع کروائے۔
ایک ماہ بعد اسی اکاؤنٹ کے ذریعے نجی بینک کی انتظامیہ نے اسد عمر کے گھر سے 98 لاکھ روپے وصول کیے اور پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں یہ رقم جمع کروائی گئی۔ اس بار بھی ملازم کا شناختی کارڈ استعمال کیا گیا۔ اپریل اور مئی 2013ء میں پی ٹی آئی کے کھاتوں میں جمع ہونے والی رقم اسی فارن فنڈنگ کا حصہ ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن پاکستان کی ہدایت پر ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں کراچی کی سات نجی کمپنیوں کی انتظامیہ کو 29 مئی کو ریکارڈ کے ساتھ طلب کر لیا گیا ہے۔