اپوزیشن اتحاد تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کی جماعتوں سے بھی کوئی مشاورت نہ ہوئی، فائل فوٹو
اپوزیشن اتحاد تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کی جماعتوں سے بھی کوئی مشاورت نہ ہوئی، فائل فوٹو

تحریک انصاف 4 دھڑوں میں تقسیم

امت رپورٹ:

تحریک انصاف واضح طور پر چار حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ان میں جہانگیر ترین کی چھتری تلے بننے والا گروپ سب سے مضبوط تصور کیا جارہا ہے۔ کیونکہ ان میں اکثریت الیکٹ ایبلز کی ہے۔ تاہم ترین گروپ کے جنوبی پنجاب کی سیاست پر اثر انداز ہونے کا زیادہ امکان ہے کہ زیادہ تر ارکان کا تعلق اسی پٹی سے ہے۔ تاہم کوشش کی جارہی ہے کہ وسطی پنجاب میں بھی گروپ کو مضبوط کیا جائے۔ اس سلسلے میں جہانگیر ترین، سابق وزیراعلیٰ پنجاب منظور وٹو سے ملاقات کرچکے ہیں۔

اسی طرح علیم خان جن کا لاہور کی سیاست پر کافی اثر و رسوخ ہے، اب جہانگیر ترین کے شانہ بشانہ دکھائی دے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہانگیر ترین تاحیات نااہلی کے تحت عملی سیاست سے باہر ہیں۔ تاہم ان کے قریبی ذرائع کے بقول ترین سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بذریعہ عدالت ان کی تاحیات نااہلی ختم ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ یہ عرصہ وہ اپنے ہم خیال گروپ کو مزید مضبوط کرکے ایک باقاعدہ پارٹی کی شکل دینے میں گزاریں گے۔

گروپ کو پارٹی کے طور پر باقاعدہ الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹرڈ کرایا جائے گا۔ یہ عندیہ عمران خان کے سابق قریبی ساتھی عون چوہدری بھی دے چکے ہیں جو اب ترین گروپ میں شامل ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ چند روز میں پارٹی کے نام کا باقاعدہ اعلان کردیا جائے گا۔ ایک ہفتہ قبل یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اگلے بہتّر گھنٹوں میں نئی سیاسی پارٹی کا باضابطہ اعلان کردیا جائے گا۔ تاہم تاحال یہ مرحلہ نہیں آسکا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے یہ اطلاعات زیر گردش ہیں کہ جہانگیر ترین کی نئی پارٹی کے لئے تین ممکنہ ناموں عوام دوست پارٹی، پاکستان انصاف پارٹی اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی پرغور کیا جارہا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کے نزیک پارٹی کے اعلان میں تاخیر کا سبب مطلوبہ تعداد میں ارکان کا جمع نہ ہونا ہے۔ تاہم گروپ کے ذرائع کے بقول پارٹی کے باقاعدہ اعلان کی تیاریاں مکمل ہیں۔ تھوڑی بہت تاخیر اس لئے ہورہی ہے کہ ہر روز نئے ارکان گروپ کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جیسے ہی وقفہ آتا ہے، پارٹی اور اس کے نام کا باضابطہ اعلان کردیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ہفتے کے روز سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے بھی جہانگیر ترین کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس ڈویلپمنٹ کو اس تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے دو سابق اے ٹی ایم کے ملاپ سے مجوزہ نئی پارٹی مالی طور پر مستحکم ہوگی۔ جبکہ اسے پی ٹی آئی کے ایک اور سابق اے ٹی ایم، علیم خان کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ یوں مجموعی طور پر تین اے ٹی ایم کے ایک ہونے سے پارٹی کو جلسے جلوسوں اور آئندہ انتخابات میں الیکشن مہم چلانے کے لئے فنڈز کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔

قریباً ایک ہفتہ پہلے جہانگیر ترین نے علیم خان کے گھر جاکر ان سے تفصیلی ملاقات کی تھی۔ جہانگیر ترین گروپ کے اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ پچاس سے زائد سابق ارکان صوبائی و قومی اسمبلی ہیں۔ ان میں سے بعض 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے والے بھی شامل ہیں۔ جہانگیر ترین اب تک ایسے ایک سو سے زائد ارکان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کرچکے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے والے ارکان کو ساتھ ملالیا جائے۔ لیکن ایسے میں پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر کی جانب سے نیا گروپ بنانے کے اعلان سے جہانگیر ترین کی ان کوششوں کو دھچکا پہنچ سکتا ہے۔

اگرچہ جہانگیر ترین گروپ کے تحت نئی سیاسی پارٹی بنانے کے عمل میں 9 مئی کے بعد تیزی آگئی ہے۔ لیکن یہ کوششیں پچھلے دو برس سے جاری ہیں۔ دوہزار اکیس کے وسط میں بھی ترین گروپ کا میڈیا میں خاصا چرچا تھا۔ تب جہانگیر ترین اور ان کے ہم خیال ارکان اسمبلی نے پی ٹی آئی کے متوازی گروپ بنانے کا باضابطہ اعلان کردیا تھا۔ ان میں آج کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی پیش پیش تھے۔

سانحہ 9 مئی کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار تحریک انصاف میں سے دوسرا دھڑا پنجاب کے سابق وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر کی زیر قیادت بنایا جارہا ہے۔ اس کا اعلان کرتے ہوئے ہاشم ڈوگر کا کہنا تھا کہ جلد اس سلسلے میں اجلاس بلایا جائے گا، جس میں پی ٹی آئی کے سابق پینتیس رہنما اور ٹکٹ ہولڈر شریک ہوں گے۔ ہاشم ڈوگر 9 مئی کے بعد پارٹی چھوڑنے والے مراد راس کے ساتھ مل کر یہ نیا گروپ بنانے جارہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر تعلیم مراد راس، سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے سالے ہیں۔ تاہم سیاسی میدان میں وہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اس مجوزہ گروپ کو ’’ڈیموکریٹس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم باضابطہ اعلان اجلاس میں مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ تاحال اجلاس کے دن اور وقت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ فی الحال گروپ کو الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹرڈ نہ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کا ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو پارٹی کے پرانے منشور کو لے کر سیاسی جدوجہد کرنا چاہتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ پنجاب اور خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسے نظریاتی کارکنوں اور عہدیداران کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو ایک عرصے سے عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کی غلط پالیسیوں سے دلبرداشتہ ہوکر گھروں میں بیٹھی تھی۔ سانحہ 9 مئی کے بعد بدلتے ملکی سیاسی منظر نامے میں اب یہ نظریاتی کارکنان اور عہدیداران بھی سیاسی میدان میں متحرک ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر سے رابطے میں ہے اور آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل پر مشاورت کی جارہی ہے۔ جس کے بعد باضابطہ اعلان متوقع ہے۔ یوں یہ تیسرا گروپ ہوگا۔ واضح رہے کہ اکبر ایس بابر نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس دائر کیا تھا۔

اگر عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی پابندی سے بچ نکلتی ہے تو یہ چوتھا گروپ ہوگا، جو تحریک انصاف کی بچی کھچی قیادت سنبھالے گی۔ عمران خان کے بقول ان کی گرفتاری یا نااہلی کی صورت میں پارٹی کی کمان شاہ محمود قریشی سنبھالیں گے۔ لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ شاہ محمود قریشی مزید اور کتنا عمران خان کے ساتھ چل سکتے ہیں۔