عمران خان
بوگس کمپنیوں اور جعلی دستاویزات پر اربوں روپے کی ٹیکس چوری اسکینڈل کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ سندھی مسلم ہائوسنگ سوسائٹی کے بنگلے میں قائم ٹیکس کنسلٹنسی کے دفتر سے گزشتہ 12 برسوں سے ٹیکس چوری کا ملک گیر نیٹ ورک چلایا جاتا رہا۔ معروف ٹیکس وکیل حسن علی بادامی کی لا فر م ایچ اے بادامی کے اس دفتر پر ایف بی آر کے چھاپے میں 24 کمپنیوں کی مہریں برآمد ہوئی ہیں۔
مختلف کمپنیوں کی 7 باکس فائلیں اور 14 ریکارڈ فائلیں بھی ملیں۔ جبکہ دفتر سے ملنے والے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل فونز کی فارنسک چھان بین میں مزید ثبوت اور شواہد بھی حاصل کر لئے گئے ہیں۔ اس کیس پر درج مقدمہ کے عبوری چالان میں اب تک گرفتار 2 ملزمان علی رضا جمانی اور عامر لاٹ کے ساتھ ہی معروف ٹیکس وکیل حسن علی بادامی کو ٹیکس فراڈ کے سرغنہ کے طور پر نامزد کردیا گیا ہے۔ اس اسکینڈل میں تفصیلی چھان بین کے بعد اب تک 7 ارب روپے سے زائد مالیت کے فراڈ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جس کی مالیت مزید تفتیش بڑھ جانے کے امکان ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق گزشتہ ماہ کے وسط میں ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو نے جعلی اور بوگس انوائسز بناکر سیلز ٹیکس ری فنڈ حاصل کرنے والی مافیا کے خلاف کریک ڈائون کرتے ہوئے ایک کاروباری شخصیت علی رضا جمانی کو گر فتار کیا۔
عدالت سے اس کا ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد اس سے تفتیش شروع کی گئی تو ہوش ربا انکشافات ہوئے۔ گرفتار ملزم کی نشاندہی پر کراچی کے ایک پوش علاقے سندھی مسلم ہائوسنگ سوسائٹی میں نجی فوڈ چین کے قریب قائم بنگلے میں ٹیکس کنسلٹنٹ حسن علی بادامی کے دفتر پر عدالت سے وارنٹ حاصل کرنے کے بعد چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے بھاری مقدار میں جعلی اور کاغذی کمپنیوں کے لیٹر ہیڈ، بوگس انوائسز، مختلف بینکوں میں جمع کرائی گئی بھاری رقوم کی رسیدیں، کمپنیوں کی اسٹییمپ کے ساتھ ناقابل تردید ثبوت ملے۔
ڈائریکٹوریٹ نے ٹیکس کنسلٹنٹ کا لیپ ٹاپ، مختلف کمپنیوں کے بینک اکاونٹس کی تفصیلات اور دیگر ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ اسی دفتر سے ایک اور کاروباری شخصیت عامر لاٹ کو گرفتار کیا گیا۔ جو 2002ء سے مختلف اشیا کی درآمد کے کاروبار سے منسلک ہے۔ ڈائریکٹوریٹ ذرائع کے مطابق اسکینڈل میں متعلقہ ریکارڈ کی چھان بین کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ملک بھر کی بڑی بڑی لمیٹڈ کمپنیاں اور رجسٹرڈ تاجر و صنعت کار اس گروہ سے جعلی انوائسز خریدتے تھے۔ تاکہ سیلز ٹیکس بچا سکیں۔ ابتدائی طور پر 7 ارب سے زیادہ کی ٹیکس چوری کے کیس سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ابھی لیپ ٹاپ اور دیگر سافٹ ڈیٹا کا فارنسک جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسکینڈل کی مالیت کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
مزید یہ کہ ٹیکس کنسلٹنٹ جعلی انوائسز بنانے کے ساتھ سیلز ٹیکس بھی جمع کراتا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایف بی آر کے آئی آر آئی ایس ( IRIS) سسٹم میں بھی نقب لگا کر سیلز ٹیکس منطور کرائے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں ایف بی آر کے عملے کی بھی انہیں معاونت حاصل تھی۔ تاہم اس مقصد کیلئے ڈائریکٹوریٹ نے اپنے ہیڈ آفس سے رابطہ کر کے دیگر ایجنسیوں کی مدد طلب کی ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف آئی اینڈ آئی، ایف بی آر کا کہنا ہے کہ جعلی انوائسز کا منظم گروہ کراچی اور فیصل آباد میں زیادہ سرگرم ہے۔
دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم علی رضا ’’جمانی برادرز کمپنی‘‘ کا شراکت دار ہے اور ملزم عامر لاٹ زائلوشیم نامی کمپنی چلا رہا تھا۔ جبکہ خود ٹیکس وکیل حسن علی بادامی ’’ہائی ٹیک کمپنی‘‘ اور جمانی برادرز میں شراکت دار کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہے ۔ رپورٹ میں تفتیش کی روشنی میں اسامہ اور نادر علی نامی افراد جو ’’میسرز میٹل سیسرسز کمپنی‘‘ کے مالکان ہیں۔ ان کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
اس بڑے اسکینڈل پر جب ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کی ٹیم کی جانب سے ان تمام کمپنیوں کے 2018ء سے 2023ء تک کے 5 سالہ ریکارڈ کی چھان بین کی گئی تو انکشاف ہوا کہ ان تمام کمپنیوں نے ملک میں مختلف شہروں میں رجسٹرڈ کمپنیوں سے اربوں روپے کی خریداری اور فروخت ظاہر کی۔ اس کے ساتھ ہی اربوں روپے کے سامان کی درآمد بھی ظاہر کی۔ جس پر کروڑوں روپے کا ٹیکس واجب الادا تھا۔ تاہم حقیقت میں یہ کمپنیاں صرف فراڈ کیلئے بنائی گئیں۔ جن پلاٹوں اور بلڈنگز میں ان کے دفاتر ظاہر کئے گئے۔ وہاں ایف بی آر کی ٹیموں کو ان کمپنیوں کے دفاتر نہیں ملے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان کمپنیوں کی جانب سے صرف کاغذی خرید و فروخت اور امپورٹ ظاہر کی گئی۔ تاکہ ان بوگس دستاویزات کو دیگر بڑے مل مالکان کو فراہم کرکے ٹیکس چوری میں مدد فراہم کی جاسکے۔
ملزم علی رضا جمانی نے تفتیش میں اعتراف کیا کہ وہ طویل عرصہ سے بے روزگار تھا۔ جب 2012ء میں اس نے اپنے کزن حسن علی بادامی سے رابطہ کیا تو اس نے مختلف دستاویزات پر اس سے دستخط کروائے اور جمانی برادرز کے نام سے کمپنی کھلوائی۔ جس کا بینک اکائونٹ کھلوانے کے بعد وہ خود ہی اسے آپریٹ کرنے لگا۔ ان تمام معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ حسن علی اس کو ماہانہ 20 ہزار روپے دیتا رہا۔ جبکہ ملزم عامر لاٹ نے انکشاف کیا کہ وہ 2002ء سے تاجر ہے۔
بعدازاں اس نے اپنے ٹیکس معاملات کو حل کرنے کیلئے حسن علی کو اپنا ٹیکس وکیل مقرر کیا۔ جس کے بعد وہی اس کے معاملات دیکھتا تھا۔ وہ صرف اپنی کمپنی کی اصل خرید و فروخت کی رسیدیں اسے فراہم کرتا تھا۔ جس میں حسن علی اضافہ یا کمی کرکے اس کے ٹیکس گوشوارے ٹیکس چوری کے لئے خود ہی جمع کرواتا تھا۔
ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نیٹ ورک کے پنجاب اور دیگر شہروں میں موجود کارندوں اور بوگس کمپنیاں چلانے والوں کے علاوہ 20 سے زائد رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کا سراغ لگایا گیا ہے۔ جن کی خرید و فروخت کی بوگس دستاویزات استعمال ہو رہی تھیں۔
ان کمپنیوں کے مالکان اور افسران کو ٹیکس چوری میں سہولت کاری پر شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔ جبکہ ان کو بلیک لسٹ کرنے کیلیے رپورٹ ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز ارسال کردی گئی ہے۔ نیٹ ورک کے 2 گرفتار ملزمان اور وکیل سمیت 3 دیگر نامزد ملزمان کی گرفتاریوں کے حوالے سے کارروائی جاری ہے۔