ڈرگ انسپکٹرز نے دوا سیز کرنے سے قبل سیمپل اٹھائے نہ جانچ کیلیے لیبارٹری بھجوائے، فائل فوٹو
 ڈرگ انسپکٹرز نے دوا سیز کرنے سے قبل سیمپل اٹھائے نہ جانچ کیلیے لیبارٹری بھجوائے، فائل فوٹو

سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں 52 کروڑ کی ادویات ضائع

سید نبیل اختر :
سندھ کے سرکاری اسپتالوں کو فراہم کردہ 52 کروڑ روپے مالیت کی ادویات ضائع ہوگئیں۔ ایوریسٹ کمپنی کے خلاف سپریم کورٹ کے احکامات پر ہونے والی کارروائیوں سے محض غریب مریضوں کو ادویات سے محروم ہونا پڑا۔ اسپتالوں کو بھجوائی گئی ادویات کا اسٹاک اسپتالوں میں ہی سیز کر دیا گیا۔ آج بھی سول اور سروسز اسپتال کراچی میں اسٹاکس کیس پراپرٹی کی صورت میں اراضی گھیرے ہوئے ہیں۔ دوائوں کی ضبطگی میں قانونی تقاضے نظر انداز کر دیئے گئے۔ کراچی کے ڈرگ انسپکٹرز نے دوا سیز کرنے سے قبل سیمپل اٹھائے نہ ہی انہیں جانچ کے لئے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری بھجوایا گیا۔ ہائی پروفائل کیس قرار دے کر سستی ادویات بنانے والے کمپنی کو تالے لگا دیے گئے۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر مارچ 2018ء میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے اسلام آباد میں واقع فارماسیوٹیکل کمپنی ’ایوریسٹ‘‘ کے ملک بھر میں موجود اسٹاک کو ضبط کرنے کے احکامات دیئے۔ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے احکامات پر کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ میں کمپنی کے مالک ڈاکٹر عثمان کو سنے بغیر ہتھکڑیاں لگادی گئیں اور ان کی کمپنی سیل کر دی گئی۔

گرفتاری کے موقع پر ڈاکٹر عثمان نے کہا کہ ان کی دوا ساز کمپنی ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو سستی دوا فراہم کرنا چاہتی تھی۔ تاہم اس میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ عدالت نے مجھے بلایا اور سنے بغیر ہتھکڑیاں لگوا دیں۔ ہم رجسٹرڈ ادویات فروخت کرتے ہیں اور ہمارے پاس دوا بنانے کا لائنس بھی موجود ہے۔

’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ جسٹس (ر) ثاقب نثار نے اپنے ایک رشتہ دار کی خواہش پر ایوریسٹ کمپنی کے خلاف کارروائی کی اور سستی دوا بنانے والی فیکٹری کو تالا لگادیا۔ ذرائع کے مطابق کمپنی کی بندش کے حوالے سے کارروائی کے دوران بتایا گیا کہ یہ کمپنی بنا لائسنس ادویات تیار کرکے فروخت کر رہی تھی۔ لیکن یہ بیانیہ ڈریپ کی رپورٹس میں غلط ثابت ہوا۔ کیونکہ ڈریپ کی جانب سے کمپنی کے خلاف کارروائی کے دوران کمپنی کا لائسنس معطل کیا گیا۔ جس میں وجہ یہ لکھی گئی کہ کمپنی ان ہائی جینک کنڈیشن میں پائی گئی ہے۔

ڈریپ کی جانب سے ایوریسٹ کمپنی کے خلاف جاری ہونے والے حکمنامے پر کراچی کے ڈرگ انسپکٹرز نے سرکاری ادویات کے اسٹاکس ضبط کرنے کے لئے سول اسپتال اور سروسز اسپتال کراچی کا رخ کیا اور وہاں موجود کروڑوں روپے مالیت کا اسٹاک سیز کر دیا اور تھانہ عیدگاہ میں ایف آئی آر 170 درج کرائی گئی۔

قبل ازیں 6 مارچ 2018ء کو صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ نے ڈریپ لیٹر نمبر F4-5/2018 پر اپنا لیٹر نمبر 5221/45 اشو کیا۔ جس میں ڈرگ انسپکٹرز کو پابند کیا گیا کہ ایوریسٹ فارما کی تمام پروڈکٹس سربمہر کردی جائیں۔ جو غیر قانونی طور پر تیار کی گئیں اور مارکیٹ میں فروخت کی گئیں۔ صوبائی ڈرگ انسپکٹرز کراچی ذاکر سموں نے مذکورہ حکمنامے پر سروسز اسپتال اور سول اسپتال کراچی پہنچ کر ایوریسٹ فارما کی پروڈکٹ AIR DSISPENSION اور TAB. ESOOM کا سارا اسٹاک ضبط کرلیا اور وہیں اسٹور میں ہی تمام اسٹاک سیز کر دیا گیا۔

ڈرگ انسپکٹر نے مزید کارروائی کے لئے 9 مارچ کو سول اسپتال انتظامیہ سے مذکورہ اسٹاک کی بل وارنٹی کلیم کی۔ جو اسپتال انتظامیہ کی جانب سے فراہم نہیں کی گئی تو ڈرگ انسپکٹر نے کیس صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ بھیج دیا۔ بعد ازاں سول اسپتال کی انتظامیہ نے مذکورہ اسٹاک کی بل وارنٹی ڈرگ انسپکٹر کو بھجوادی۔ جس سے پتا چلا کہ مذکورہ دوا کا اسٹاک حیدرآباد لطیف آبادکے ایک ڈسٹری بیوٹر المصطفیٰ اور القدیر انٹرپرائزز بی کمرشل ایریا بالمقابل طوبیٰ ہائٹس حیدرآباد سے خریدی گئی تھیں۔

کراچی میں بے شمار ڈسٹری بیوٹرز کے ہوتے ہوئے ادویات کی خریداری کیلئے حیدرآباد کے ڈسٹری بیوٹر سے ادویات کی خریداری میں کرپشن کی کہانی بھی سامنے آرہی ہے۔ جس میں ایک بڑے اسپتال کے کلیدی عہدے پر موجود افسر نے بھاری کمیشن وصول کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتال سے اسٹاک سیز کرنے کے بعد کارروائی کے لئے 28 مارچ کو ذاکر سموں نے ایوریسٹ کمپنی کو خط بھیجا۔ چونکہ فیکٹری پر تالا لگا ہوا تھا۔ اس لئے ڈرگ انسپکٹر نے پنڈی جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو خط بھیجا۔ تاکہ عثمان کو وصول ہوجائے۔ پنڈی سے ڈرگ انسپکٹر کو ریسیونگ بھجوادی گئی کہ خط ڈاکٹر عثمان کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ تاہم ڈاکٹر عثمان کی جانب سے ریکارڈ سے متعلق جواب نہیں آیا۔

جواب موصول نہ ہونے پر ڈگ انسپکٹر نے صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ کو رپورٹ جمع کراتے ہوئے کیس میں پیش رفت کے حوالے سے احکامات مانگے۔ جس پر صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ نے بغیر لائسنس دوا بنانے کے الزام میں کمپنی کے مالک کے خلاف مقدمہ قائم کرانے کی اجازت دے دی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بغیر لائسنس دوا بنانے کے الزام میں مقدمہ کے اندراج کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ ڈریپ نے کمپنی کے خلاف کارروائی کرکے اس کا لائسنس منسوخ کیا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری ادویات کی کروڑوں روپے کی خریداری بغیر لائسنس یافتہ کمپنی کی طرف سے کس طرح کی گئی۔ جبکہ خریداری کے لیے پورے سندھ کے اسپتالوں سے دوائوں کی طلب کی رپورٹ بھی حاصل کی جاچکی تھی اور بلک سپلائی کے لئے کمپنی کو ادائیگی سے قبل ضابطہ کی تمام کارروائیاں مکمل کی گئی تھیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپنی نے سول اسپتال کراچی کے علاوہ حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص، لاڑکانہ اور دیگر سرکاری اسپتالوں میں بھی ایوریسٹ کی پروڈکٹس بھجوائی تھیں۔ جن کی مالیت 52 کرور روپے بنتی ہے۔ اور محض انتقامی کارروائی کر کے مذکورہ ادویات غریبوں کی پہنچ سے دور کردی گئیں۔