عمران خان :
یونان کی سمندری حدود میں سینکڑوں تارکین وطن کی کشتی غرق ہونے کے سانحے نے یونانی شہریوں کے دل بھی تڑپا دیئے ہیں۔ یونان کے کئی شہروں میں عوام نے اپنی حکومت کے سفاک رویے کیخلاف مظاہرے کیے ہیں۔ دوسری جانب حادثہ کے پانچویں روز بھی ڈوبنے والے لاپتا افراد کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم اب تک 600 سے زائد افراد نہیں مل سکے ہیں۔ جن کے اب زندہ بچ جانے کی امیدیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔
مجموعی طور پر کشتی حادثہ میں ڈوبنے والے 700 سے زائد افراد میں سے اب تک صرف 80 تارکین وطن کی لاشیں مل سکی ہیں۔ جن کی شناخت کا عمل ساتھ ساتھ ہی شروع کردیا گیا ہے۔ زندہ بچ جانے والے افراد میں اب تک 12 پاکستانیوں کے کوائف سامنے آچکے ہیں۔ جبکہ ملنے والی لاشوں میں بھی 28 پاکستانی شہریوں کی شناخت ہوچکی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق لیبیا سے تارکین وطن کو یورپ لے کر جانے والی بد قسمت لانچ میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہی تھی۔ جو 400 کے لگ بھگ بتائی جارہی ہے۔ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی افراد کو کشتی کے نچلے حصے میں رکھا گیا تھا، جہاں بچنے کے امکانات مزید کم ہو جاتے ہیں ۔
ایک جانب وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے کشتی حادثہ پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے کو حادثے میں ملوث ملزمان کے خلاف تحقیقات کرنے اور شہریوں کو جھانسا دے کر بیرون ملک جانے والے انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں اور آج اس واقعہ پر ملک بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تو دوسری طرف یونان کے قریب 700 سے زائد افراد کے ساتھ ڈوبنے والی کشتی کے حادثے کو یورپ کی ماڈرن ہسٹری کا سب سے بڑا سمندری سانحہ قرار دیا گیا ہے۔
واقعہ کے بعد تاریخ میں پہلی بار یونان کے شہری اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے اس واقعہ کو حادثہ قرار دینے کے بجائے سفاک قتل کہنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ روز حادثے کا شکار ہونے والے افراد کے حوالے سے اظہار ہمدردی کے لئے یونان کے شہریوں نے یونان کے (Thessaloniki) کے ساحل پر سیاحوں کو لے کر آنے والے پر تعیش جہازوں کے سامنے بڑے بڑے احتجاجی بینرز آویزاں کردیئے ہیں۔ جن پر لکھا ہے کہ ’’سیاح دنیا میں تارکین وطن کی سب سے بڑی قبر پر آکر انجوائے کریں‘‘۔ اس کے ساتھ ہی یونان کے شہر ایتھنز سمیت دیگر شہروں میں عوام ریلیوں کی صورت میں سڑکوں پر متعلقہ حکام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق اب تک یونان جاتے ہوئے کشتی الٹنے سے جاں بحق ہونے والے 28 اور زندہ بچ جانے والے 12 نوجوانوں کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق زیادہ تر افراد کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقوں کوٹلی اور میر پور کے گائوں دیہات سے تھا۔ جہاں تقریباً ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اکثریت کا تعلق گجرات، گجرانوالہ، منڈی بہائوالدین، سرائے عالم گیر، جہلم اور پنجاب کے دیگر علاقوں کے قصبوں اور دیہات سے ہے۔
جبکہ اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق کشتی حادثے میں منڈی بہاؤالدین کے جاں بحق افراد کی تعداد 5 ہو گئی ہے۔ جاں بحق ہونے والوں میں نوجوان ارسلان بھی شامل تھا۔ جس کی غائبانہ نماز جنازہ نواحی گاؤں کھائی میں ادا کر دی گئی ہے۔ ارسلان ایک بیٹے اور ایک بیٹی کا باپ تھا۔ ارسلان نے اٹلی جانے کیلیے گجرات کے انسانی اسمگلر عرفان ہاشمی کو 10 لاکھ روپے ایڈوانس ادا کئے تھے۔
لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے قریب سمندر میں کشتی حادثے میں لاپتا ہونے والے 22 نوجوان نوشہرہ ورکاں کے ہیں۔ جن میں سے 10 نوجوانوں کا تعلق کڑیال کلاں، 4 کا تعلق نواحی گاؤں بھاکرانوالی، 2 کزنوں کا تعلق میلو ورکاں، 2 کا تعلق نواحی گاؤں نتھو سیویا، 2 کا تعلق خان مسلمان، ایک نوجوان کا تعلق نواحی گاؤں چک پاکھر، جبکہ ایک کا تعلق منگوکی سے ہے۔ مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے یورپ جانے والا حافظ آباد کا نوجوان بھی سمندر کی لہروں میں گم ہو گیا۔ جلال آنہ گاؤں کا رہائشی نوجوان بھی بدقسمت کشتی میں سوار تھا۔ تاہم ابھی تک اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں مل سکی ہے۔
حادثہ میں زندہ بچ جانے والوں کے نام بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ جن میں کوٹلی کے محمد عدنان بشیر ولد محمد بشیر، حسیب الرحمان ولد حبیب الرحمن، گوجرانوالہ کے محمد حمزہ ولد عبدالغفور، ذیشان سرور ولد غلام سرور، گجرات کے عظمت خان ولد محمد صالح، عثمان صدیق ولد محمد صدیق، عرفان احمد ولد شفیع اور عمران آرائیں ولد مقبول شامل ہیں۔ شیخوپورہ کے محمد سنی ولد فاروق احمد، زاہد اکبر ولد اکبر علی، منڈی بہاؤالدین کا مہتاب علی ولد محمد اشرف، سیالکوٹ کا رانا حسنین ولد رانا نصیر احمد شامل ہیں، جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
ملک میں اب تک حادثے کے بعد ایف آئی اے کی کارروائیوں میں کراچی اور پنجاب سے واقعہ میں ملوث 2 ایجنٹوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ جنہوں نے لاکھوں روپے لے کر شہریوں کو بیرون ملک بھیجا تھا۔ جبکہ آزاد کشمیر میں پولیس کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمہ میں 26 مقامی ایجنٹوں کو نامزد کرکے ان کی گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ جبکہ ایف آئی اے ڈائریکٹر جنرل کے احکامات پر اسلام آباد، لاہور اور گجرات کے سرکلوں میں 6 افسران پر مشتمل 3 ٹیمیں قائم کی گئی ہیں، جنہیں تمام تارکین وطن کی معلومات جمع کرنے اور ان کے اہل خانہ سے رابطے کرکے انہیں بھجوانے والے ایجنٹوں کی معلومات حاصل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
لیبیا سے تارکین وطن کو لے کر اٹلی کی طرف جانے والی لانچ کے حوالے سے دنیا میں تمام بڑے میڈیا گروپوں کی جانب سے خصوصی رپورٹنگ کی جا رہی ہے۔ تاہم اب تک سب سے مستند رپورٹ بحر اوقیانوس میں تارکین وطن کی سرگرمیوں پر خصوصی نظر رکھنے والی فلاحی تنظیم ’’الارم فون‘‘ کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ یہ تنظیم تارکین وطن کو سمندر میں طغیانی میں پھنس جانے کی صورت میں ایک خصوصی ہیلپ لائن فراہم کرتی ہے، جس پر تارکین وطن یا کشتیوں کا عملہ کال کرکے اطلاع دے سکتا ہے۔ جس کے بعد تنظیم کی جانب سے بحر اوقیانوس کے چاروں اطراف موجود ممالک کے بحری امور سے متعلق اداروں کو الرٹ جاری کیا جاتا ہے تاکہ پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کی جاسکے ۔
’’الارم فون‘‘ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کشتی 13 جون کو صبح 9 بجے قریب جب یونان کے پانیوں میں طغیانی کی زد میں آئی تو اسی وقت ٹوئٹر کے ایک صارف Nawal Soufi (نوال صوفی) کی جانب سے اطلاعی پوسٹ کی گئی کہ ایک کشتی 750 سے زائد افراد کے ساتھ پھنس گئی ہے، جس کو مدد کی ضرورت ہے۔ اور اس نے ساتھ ہی اس لانچ کی جی پی ایس لوکیشن بھی منسلک کی۔ تاہم اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ 13 جون کو ہی تنظیم کی جانب سے لانچ میں موجود لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم خراب موسم کے باعث ممکن نہ ہوسکا۔ دوپہر 2 بجکر 30 منٹ پر ایک شخص نے تنظیم کے نمبر پر رابطہ کیا اور مدد کی اپیل کی۔ تاہم یہ شخص اپنی لوکیشن شیئر نہیں کرپایا اور کال کٹ گئی۔ اس کے بعد تنظیم کی جانب سے بار بار اس نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن کامیابی نہیں ملی۔
بعد ازاں 10 منٹ کے بعد ایک اور کال سے رابطہ کیا گیا۔ اس طرح سے کشتی پر موجود افراد میں سے کئی نے دوپہر ڈھائی بجے سے رات 8 بجے تک 17 رابطے کئے اور کشتی میں پانی اور غذا کی قلت کے ساتھ ہی خراب موسم کی اطلاع دیتے رہے۔ اس دوران 3 بجے سے رات 8 بجے تک تنظیم کی جانب سے یونانی بحری اداروں اور ریسکیو حکام کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے اداروں کو بھی متعدد ای میلز اور فون کالز کی گئیں تاکہ لوگوں کی مدد کی جاسکے۔ اسی دوران لانچ کا کپتان چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر فرار ہوگیا، جس کے بعد لانچ لاوارث ہوگئی اور تارکین وطن مزید پریشان ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق تقریباً 8 بجے انہیں موصول ہونے والی ایک کال میں بتایا گیا کہ لکی اسٹار اور پیٹریاٹ واریئر نامی دو مرچنٹ لانچیں اس کشتی کے قریب پہنچیں جنہوں لوگوں کو پانی اور کچھ کھانے کو دیا۔ اسی دوران تنظیم کو اطلاعات ملیں کہ شام کے وقت یونان کے ساحلوں سے ہیلی کاپٹر اور کچھ سرکاری بوٹس متاثرہ کشتی کے اطراف گھومتی رہیں، تاہم لوگوں کو ریسکیو نہیں کیا گیا۔ جب رات 12 بج کر کچھ منٹ پر جب 13 تاریخ 14 جون میں بدل گئی تو ایک آخری کال لانچ سے موصول ہوئی، جس میں بات کرنے والے شخص نے سراسیمگی کے عالم میں بتایا کہ جو کشتیاں بھیجی گئیں ہیں، انہوں نے ہمیں…… اس کے بعد کال منقطع ہوگئی۔
تنظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حادثے کے بعد یونانی حکام کی جانب سے صفائی پیش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے لانچ میں موجود لوگوں کو ریسکیو کرنے کی پیشکش کی تھی۔ لیکن لوگوں نے منع کردیا تھا اور وہ اٹلی کی جانب جانا چاہ رہے تھے۔ جبکہ بعد میں لانچ کو رسی ڈال کر کھینچا گیا تو وہ الٹ گئی۔ تاہم رپورٹ کے مطابق یہ صفائی کسی طور درست نہیں مانی جاسکتی کیونکہ عالمی قوانین کے مطابق پھنسے ہوئے لوگوں کو فوری مدد کی ضرورت ہوتی ہے نہ کی ان سے مرضی پوچھی جائے۔ جبکہ لانچ سے تنظیم کو معلوم ہوا تھا کہ لوگ امداد کے لئے دہائیاں دے رہے تھے کہ لانچ میں عورتوں اور بچوں کی بھی کچھ تعداد تھی ساتھ میں کچھ زخمی بھی تھے۔
تنظیم کی رپورٹ کے مطابق یہاں یونانی بحری اداروں کا کردار مشکوک ہے۔ کیونکہ ماضی میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جس کی وجہ سے تارکین وطن سمندر میں مرجانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن یویانی (Hellenic Coast Guard) ہیلنک کوسٹ گارڈ کے ہتھے چڑھنا منظور نہیں کرتے، جن کا سلوک انتہائی ناروا ہوتا ہے۔ یونانی ساحل اس سلوک کی وجہ سے تارکین وطن کے لئے جہنم سمجھے جاتے ہیں، جہاں ان پر تشدد بھی ہوتا ہے اور سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ جبکہ اکثر یونانی گارڈز لانچوں کو اپنے ساحلوں سے دور ہانکتے نظر آتے ہیں، بھلے یہ کشتیاں سمندر میں ڈوب جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک یونان کو یورپ کی ’’شیلڈ‘‘ یعنی تارکین وطن سے یورپ کی حفاظتی ڈھال گردانتے ہیں اور یورپی یونین کے ایک سابق صدر برملا اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن سے یونانی بے رحمی سے نمٹتے ہیں۔ یونان میں تارکین وطن کو قابو کرنے کے بعد انہیں ترکی یا لیبیا واپس بھیجا جاتا ہے، جہاں کئی کئی برسوں سے ہزاروں تارکین وطن قیدیں کاٹ رہے ہیں۔ تارکین وطن لیبیا یا ترکی سے نکلنے کے بعد انتہائی قریب موجود یونان کے بجائے طویل سفر طے کرکے قدر محفوظ اور نرم قوانین رکھنے والے اٹلی کے ساحلوں تک پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں۔