ایجنٹوں کے قریبی عزیز بطور سرغنہ یونان- اٹلی- اسپین اور دیگر ممالک میں مستقل رہائش پذیر ہیں- فائل فوٹو
 ایجنٹوں کے قریبی عزیز بطور سرغنہ یونان- اٹلی- اسپین اور دیگر ممالک میں مستقل رہائش پذیر ہیں- فائل فوٹو

ایف آئی اے کے تھانے انسانی اسمگلرز ایجنٹوں کی آماجگاہ بن چکے

عمران خان :
رواں ماہ 16 تاریخ کو جس وقت امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ واشنگٹن میں ہونے والی تقریب میں پاکستانی افسر کو انسانی اسمگلنگ کے انسداد کیلیے بہترین کاوش پر ہیرو قرار دے کر قابل قدر امریکی سند سے نواز رہے تھے۔ عین اس وقت بحیرہ روم میں یونان کے قریب ڈوبنے والی کشتی پر موجود سینکڑوں پاکستانیوں کی لاشوں کی تلاش کیلئے سرچ آپریشن جاری تھا۔ تقریباً 3 درجن بدقسمت پاکستانیوں کی لاشیں نکالی جاچکی تھیں۔ جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ ایف آئی اے کی جانب سے نہ تو انسانی اسمگلنگ پر قابو پایا جاسکا اور نہ ہی نوجوان متاثرین کو موت کے سفر پر جانے سے روکا جا سکا ہے۔

ایوارڈ سے نوازے جانے والے ظہیر احمد 20 گریڈ کے افسر کی حیثیت سے ایف آئی اے میں گزشتہ کئی برس سے ڈیپوٹیشن پر تعینات رہے اور اس دوران انہوں نے ایف اے ٹی ایف اور اینٹی ہیومن ٹریفکنگ کے شعبوں میں ٹاسک ملنے پر کام کیا۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول ظہیر احمد کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے انسانی اسمگلنگ کے انسداد اور وجوہات پر ایک رپورٹ بناکر امریکا ادارے کو دی ہے۔ جس میں غیرقانونی طور پر جانے والوں کو متاثرہ شخص قرار دیا گیا ہے اور اصل ایجنٹوں کے خلاف مقدمات درج کر کے گرفتاریوں کی سفارش کی ہے۔ تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی ایف آئی اے کے ملک بھر کے سرکلز میں لیبیا، اٹلی، ترکی، مسقط، یونان اور دیگر ممالک سے ڈیپورٹ ہوکر آنے کئی افراد کو ہی ایف آئی اے افسران ملزم بناکر کارروائی کر رہے ہیں اور ان متاثرین کے حق میں بننے والے نئے قوانین کو بھی اپنی آمدنی کا ذریعہ بنارہے ہیں۔ جو متاثرہ شخص رقم دیتا ہے۔ اسے چھوڑ کر ایجنٹ کے خلاف انکوائری شروع کردی جاتی ہے اور جو رقم نہ دے۔ اسے اصل ملزم بنانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کے معاملات کی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی ادارے کو ملک بھر میں مطلوب 115 کے قریب انسانی اسمگلرز میں سب سے زیادہ تعداد پنجاب کے علاقوں گوجرانوالہ اور گجرات سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی اکثریت ان سب ایجنٹوں پر مشتمل ہے۔ جن کے قریبی عزیز انسانی اسمگلنگ کے سرغنوں کے طور پر لیبیا، یونان، اٹلی، اسپین وغیرہ میں 80 اور 90 کی دہائی سے مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں۔

یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان علاقوں کیلئے ایف آئی اے کے تھانوں پر انسانی اسمگلرز کے مقامی ایجنٹوں نے اپنا اثر رسوخ اس حد تک قائم رکھا ہے کہ بعض اوقات ایجنٹ ایف آئی اے کے کمرے اور افسران کی کرسیاں استعمال کرتے رہے اور منشی کی حیثیت سے اپنی مرضی سے ایجنٹوں کے خلاف بننے والے کیسز اور انکوائریاں چلاتے رہے۔ جس کیلئے انہوں نے ایف آئی اے افسران کو ماہانہ بھاری رشوت کے علاوہ بیش قیمت کاریں اور دیگر عیاشیوں کا سامان بھی مہیا کیا۔

اس ضمن میں معلوم ہوا ہے کہ 2018ء میں جب لیبیا کے ساحل سے تارکین وطن کو لے کر یورپ جانے والی کشتی حادثے کا شکار ہوئی تو پاکستانی نوجوانوں کی لاشیں وطن پہنچنے کے بعد پہلی بار ضرورت محسوس کی گئی کہ گجرات میں ایف آئی اے کا علیحدہ تھانہ ہونا چاہئے۔ اس سے قبل ایف آئی اے گوجرانوالہ اسٹیشن سے گجرات کے معاملات دیکھے جاتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس اراضی ایف آئی اے گجرات کا تھانہ بنایا گیا۔ اس کے مالک کے بیٹے بھی اس حادثے میں یورپ کے سفر کے دوران موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اس وقت اس تھانے کے معاملات شفیع نامی ایک ایجنٹ چلارہا تھا۔ جس نے اپنے ساتھ 17 پرائیویٹ افراد کی ٹیم رکھی ہوئی تھی اور وہ تفتیشی افسر کے کمرے میں بیٹھ کر انکوائریوں اور کیسوں کی فائلوں کو مرضی سے چلاتے تھے اور سرکاری خط و کتابت کے علاوہ مدعی اور ملزمان کیلئے جاری ہونے والی نوٹس بھی اپنی مرضی سے نکلواتے تھے۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی جانب سے جب حادثے پر مکمل تحقیقات کیلئے ایک نیا افسر بھیجا گیا تو شفیع ایجنٹ پہلے ہی کمرے خالی کرکے فرار ہو گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں گجرات تھانے کے ایک افسر کے ساتھ گاڑی میں اسے کئی بار دیکھا گیا اور اس ملی بھگت کی رپورٹ سابق ڈی جی کو ارسال کی گئی۔ تاہم بعد ازاں اس افسر کا تبادلہ کر دیا گیا اور مافیا دوبارہ سرگرم ہو گئی۔ جبکہ اس کی سرپرستی کرنے والا اس وقت کا ڈپٹی ڈائریکٹر آج 2 گریڈ ترقی پا چکا ہے۔

’’امت‘‘ کی جانب سے لیبیا سے سینکڑوں تارکین وطن کو لے کر اٹلی جانے والی کشتی کے حادثے کے بعد ایف آئی اے کے متعدد موجودہ اور سابق افسران سے بات چیت کی گئی اور سوال کیا گیا کہ تقریباً ہر سال بحیرہ روم میں تارکین وطن کی اموات کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ اس وقت بھی ایران، ترکی، لیبیا، یونان اور اٹلی سمیت مختلف ممالک میں ہزاروں پاکستانی نوجوان غیر قانونی طور پر جاتے ہوئے پکڑے جانے پر جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔

تاہم کئی دہائیوں سے جاری اس دھندے پر کیوں نہیں قابو پایا جاسکا اور یہ بھی کہ پاکستان سے ایجنٹوں کے جھانسے میں آکر یورپ کے غیر قانونی سفر پر جانے والوں کی 90 فیصد تعداد پنجاب کے مخصوص علاقوں گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہائوالدین، سرائے عالمگیر، جہلم اور آزاد کشمیر کے علاقوں سے ہی کیوں ہے؟ تو ان افسران کا کہنا تھا کہ ان کو ملنے والی معلومات کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ مذکورہ علاقوں سے 70 سے 80 کی دہائی میں یورپ جانے والے وہ افراد ہیں۔ جن کی بڑی تعداد اب ان ملکوں میں مستقل طور پر آباد ہے اور وہ اپنی اگلی دو نسلوں کو بھی ان ملکوں میں بلا کر سیٹل کرچکے ہیں۔

مذکورہ علاقوں میں 70 اور 80 کی دہائی میں جانے والی پاکستانیوں کی کھیپ اور ان کے بعد جانے والی نسلوں نے اپنے آبائی علاقوں میں عالیشان مکانات قائم کر لئے ہیں۔ جبکہ ان کے پاس بیش قیمت گاڑیاں بھی موجود ہیں۔

یعنی یہ خاندان اپنے علاقوں میں متمول افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے مخصوص علاقوں کوٹلی اور میرپور کے علاوہ پنجاب کے علاقوں گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہائوالدین، سرائے عالمگیر اور جہلم میں ایسے کئی گائوں دیہات ہیں۔ جن کے تمام گھروں سے ایک یا ایک سے زائد افراد اپنے پورے خاندان سمیت یورپی ممالک میں مقیم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر گھر میں لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھنے والے شخص کی پہلی خواہش یورپ جانا ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہء کہ یہاں کھیتی باڑی یا چھوٹے موٹے کاروبار کرکے بھی خوشحال نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر وہ یورپ پہنچ گیا تو اس کیلئے روشن مستقبل کے دروازے کھل جائیں گے اور وہ اپنا قرضہ اتارنے کے ساتھ ہی اپنے خاندان کیلئے بھی بہت کچھ کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

ان علاقوں میں ایسے ہزاروں گھر موجود ہیں۔ جن کے بچے یورپ کے غیرقانونی سفر پر نکلے اور سمندروں ڈوب گئے یا پھر ایران اور ترکی کے صحرائوں اور پہاڑیوں و کھائیوں میں سفر کی اذیت برداشت نہ کرتے ہوئے جان سے چلے گئے۔ کئی خاندانوں کو ان کی لاشیں بھی واپس نہیں مل سکیں۔ ایسی صورتحال میں بہت سے والدین اپنے بچوں کو روکنے کی بھی بہت کوشش کرتے ہیں۔ لیکن نوجوان اس سفر کیلئے کبھی بغیر بتائے بھی کھنچے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ انہیں اپنے ہی علاقوں میں سہولت کاری اور جھانسا دینے کیلئے 70، 80 اور 90 کی دہائی میں یورپ جا کر بسنے والے سینکڑوں افراد اور ان کے مقامی سب ایجنٹوں کی صورت میں مل جاتے ہیں۔ جو مقامی طور پر 10 سے 15 لاکھ وصول کرنے کے بعد انہیں پہلے اوریجنل ویزوں پر لیبیا یا ترکی وزٹ اور اسپانسر ویزوں پر بلاتے ہیں۔

جہاں سے8 سے 10 ہزار ڈالرز کی صورت میں رقم وصول کر کے انہیں مچھلیاں پکڑنے والی یا مال بردار پرانی لانچوں میں یورپ کے مشکل اور جان لیوا سفر پر روانہ کردیتے ہیں۔ ایسے ہزاروں نوجوانوں کے انٹریوز ایف آئی اے کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ جو ایک بار پُرخطر سفر سے ڈیپورٹ ہوکر واپس آئے یا ڈوبنے کے بعد زندہ بچ گئے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے پھر یورپ جانے کی کوشش کی اور پکڑے گئے۔ ایسے افراد کو ’’ری پیٹرز‘‘ کہا جاتا ہے۔

ایک ایف آئی اے افسر کے مطابق اس میں ادارے کے افسران کی کرپشن علاوہ ہر دور کی حکومتوں اور ان علاقوں کے سیاسی رہنمائوں کا بھی زیادہ کردار ہے۔ کیونکہ بنیادی سماجی اور معاشی وجوہات سامنے آنے کے باجود نہ تو ان علاقوں کے نوجوانوں کیلئے کوئی متبادل منصوبہ بنایا گیا اور نہ ہی ان میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

جبکہ ایجنٹوں کے ان علاقوں میں سیاسی کردار کی وجہ سے ان پر بھی ہاتھ ہلکا رکھا گیا۔ حالانکہ مذکورہ علاقوں سے ہونے والی انسانی اسمگلنگ اور اس میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں کی جانے والی تحقیقات میں ہی حقائق اور بنیادی وجوہات سامنے آگئی تھیں۔ تاہم ان پر کسی بھی حکومت میں ایف آئی اے سے سنجیدہ کام نہیں کروایا گیا۔