احمد خلیل جازم :
یونان میں کشتی ڈوبنے کے سانحے کو آٹھ روز گزر چکے ہیں اور اب تک صرف بارہ زندہ بچ جانے والے پاکستانی تارکین وطن کی شناخت ہو چکی ہے۔ جبکہ بتایا جارہا ہے کہ اس کشتی میں تین سو سے زائد پاکستانی تارکین وطن سوار تھے۔ جن میں سے اکثر کا تاحال کوئی پتا نہیں چل سکا۔
گجرات شہر اور اس کے مضافات میں کئی قصبات سے لگ بھگ 47 افراد اس کشتی میں سوار تھے۔ جن میں ایک گائوں گولیکی کے ایک ہی گلی کے چھ لڑکے بھی شامل تھے۔ جن کے بارے کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ حادثے کے بعد پولیس اور ایف آئی اے نے کریک ڈائون شروع کر دیا ہے اور فی الحال کارروائی کے دوران ایجنٹ محمد شبیر اور وقاض احمد کو گجرات سے،جب کہ طلحہ نامی شخص کو شیخوپورہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
ایف آئی کے ذرائع کے مطابق ان ایجنٹوں نے فی کس24 لاکھ روپے وضول کیے تھے اور سہانے خواب دکھا کر ان نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دیا گیا، جنہیں بعد ازاں سمندر کے بے رحم لہروں کے سپرد کردیا۔ اس سانحے پر متعدد خبریں موصول ہورہی ہیں کہ یہ کشتی کیسے اور کیوں ڈوبی؟ اس سے قطع نظر مرنے والے اور لاپتا افراد کے لواحقین پر کیا گزر رہی ہے؟ یہ الگ داستان ہے۔
گجرات سے مقامی صحافی احسان فیصل نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ، یوں تو گجرانوالہ، شیخوپور اور پنجاب کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ اس کشتی میں سوار تھے۔ لیکن خاص طورپر گجرات کے لوگوں کی تعداد زیادہ بتائی جاتی ہے۔ پولیس نے47 افراد کا کنفرم کیا ہے کہ یہ لوگ اسی کشتی میں موجود تھے۔ جب کہ اب تک گجرات سے ایک شخص عظمت کے بچ جانے کی اطلاع کنفرم ہوچکی ہے۔ جب کہ باقی گیارہ بچ جانے والے گجرانوالہ، شیخوپورہ، سیالکوٹ اور کوٹلی آزادکشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔
عظمت کے بھائی نے بتایا تھا کہ ’’ہمارا بھائی قاسم آباد کے میاں عرفان نامی ایجنٹ کے توسط سے لیبیا گیا تھا۔ رواں برس کے تیسرے مہینے کے آخر میں چوبیس لاکھ روپے میں اٹلی بھجوانے کے لیے اسے لیبیا روانہ کیا تھا۔ لیبیا پہنچنے پر ہم سے میاں عرفان نے بارہ لاکھ روپے لے لیے تھے۔ جبکہ باقی بارہ لاکھ اٹلی پہنچنے پر ادا کرنے تھے۔
حادثے سے دو روز پہلے ہم سے میاں عرفان مزید بارہ لاکھ کا تقاضہ کرتا رہا کہ آپ کا بچہ اٹلی پہنچ گیا ہے۔ لیکن ہم نے کہا کہ پہلے ہماری، ہمارے بھائی سے بات کرائو۔ لیکن اس نے بات نہ کرائی۔ آخر ہم لوگ حادثے والے دن اس کے آفس پہنچ گئے تو وہاں تالا پڑا ہوا تھا، اور اس کا سیل نمبر بھی بند ملا۔ پھر کشتی ڈوبنے کی اطلاع ملی اور ہمیں فکر لاحق ہوئی۔ چنانچہ ہم نے اپنے بھائی کی تصویر اور شناختی کارڈ نمبر بتائے گئے نمبر پر بھجوائے کہ معلوم ہوسکے کہ ہمارا بھائی تو اس کشتی میں نہیں تھا؟ ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بھی اسی کشتی میں تھا، لیکن وہ زندہ ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ جانے والے چھ لڑکے ابھی تک لاپتا ہیں، جن کا ہمیں ازحد افسوس ہے۔ ہم نے اپنے بھائی کو بہت منع کیا تھا۔ لیکن اسے ایسے سہانے خواب دکھائے گئے تھے کہ اس نے ہم سے زمین اور جانوروں کا بٹوارہ کرایا اور سب کچھ بیچ کر نکل گیا‘‘۔
گجرات سے ہی ایک اور صحافی غلام مصطفی نے بتایا کہ گجرات سے متصل قصبات ڈنگہ، گولیکی، بولانی، ٹاہلی صاحب اور قاسم آباد کے لڑکے اس کشتی میں سوار تھے۔ اس کے علاوہ گجرات شہر سے شاہین چوک، رحمانی تھانہ اور ڈنگہ شہر کے لوگ بھی درجنوں لوگ شامل تھے۔ یہاں ایجنٹ مافیا کے لوگ نوجوانوں کو سہانے خواب دکھا کر لوٹتے ہیں۔ ایف آئی اے جو اس وقت کریک ڈائون کررہی ہے، اسی ادارے کے لوگ اس کام میں شامل ہیں اور وہ ان سے منتھلیاں لیتے ہیں، جبھی تو یہ لوگ غیر قانونی کام اتنی دلیری سے کرتے ہیں۔ یہاں گھروں کے گھر اجڑ گئے ہیں۔ ابھی ایف آئی اے چھاپے مار رہی ہے، لیکن ابھی تک وہ ایجنٹ ان کے قابو میں نہیں آسکے، جنہوں نے ان 47 لڑکوں کو باہر بھجوایا تھا۔ وہ اس وقت چھپ گئے ہیں یا چھپا دیے گئے ہیں۔ بس کاغذی کارروائی جاری ہے۔
گجرات میں ایجنٹوں کی بھرمار ہے، ہر قصبے اور گائوں تک ان کی رسائی ہے۔ یہ نوجوانوں کو ماں باپ سے لڑجھگڑ کر باہر جانے کی ضد میں پیسے اینٹھتے ہیں۔ بچے ماں باپ سے جھگڑ کر زمینیں بکوا کر ان ایجنٹوں کو پیسہ دیتے ہیں اور اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ 22 سے 24 لاکھ فی کس لیے جاتے ہیں اور بچوں کے پہنچنے کی گارنٹیاں دی جاتی ہیں۔ اس وقت ماں باپ بے چارے اپنے بچوں کی زندگی کے حوالے سے امید و نا امیدی کی کیفیت کا شکار ہیں۔ کوئی کہتا ہے فلاں بچ گیا ہے ، تو اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی سیالکوٹ سے بچنے کی خبر دیتا ہے تو یہ لوگ وہاں دوڑ پڑتے ہیں۔ ان کی زندگی اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
ڈنگہ گجرات میں ایک ہی گھر کے دو بھائی بھی مرنے والوں میں شامل تھے، اس گھر پر قیامت گزر گئی ہے۔ گجرات کے قصبہ ڈنگہ کے محلہ نیامت پورہ کے دو سگے بھائیوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں سکا۔ میاں جبار اور میاں غفار دونوں بھائی اب تک لاپتا ہیں اور ان کی بوڑھی والدہ حکومت سے منت کررہی ہے کہ اس کے بچوں کے بارے بتایا جائے آیا وہ زندہ بھی یا نہیں۔ لیکن لاپتا افراد کے بارے زیادہ تر رائے یہی ہے کہ وہ بچ نہیں پائے۔ مگر ماں باپ کو یہ بات کون سمجھائے۔ یہاں ہر گھر میں ایک کہانی ہے، جو سہانے خوابوں اور یورز سے شروع ہوکر موت کے بھیانک انجام پر منتج ہو رہی ہے۔