امریکی حکام اسلحہ اسمگلرز کے ذریعے واپس خریدنے کیلیے کوشاں ہیں، فائل فوٹو
 امریکی حکام اسلحہ اسمگلرز کے ذریعے واپس خریدنے کیلیے کوشاں ہیں، فائل فوٹو

افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ غزہ پہنچ گیا

نمائندہ امت :
افغانستان میں امریکی فوج کی جانب سے طالبان کے خلاف خانہ جنگی کیلئے چھوڑا گیا جدید اسلحہ امریکہ کیلئے درد سربن گیا۔ یہ امریکی جدید اسلحہ فسلطین کے علاقے غزہ پہنچ گیا ہے۔ جس سے اسرائیل میں کھلبلی مچ گئی ہے۔

امریکہ نے اس مسئلے سے نمٹنے کیلیے اسلحہ اسمگلرز کے ذریعے طالبان سے اسلحہ زیادہ قیمت پر خریدنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ تاہم طالبان حکومت کی جانب سے سخت سزاؤں کی وجہ سے اسلحہ اسمگلرز اسلحہ خریدنے سے کترار رہے ہیں۔ جبکہ تین بڑے اسمگلرز کو گرفتار کر کے ان سے پوچھ گچھ گئی ہے۔

’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ افغانستان میں امریکہ نے تقریبا پندرہ ارب ڈالر کے جدید چھوٹے ہتھیار چھوڑ ے ہیں۔ جن کا بنیادی مقصد کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک میں خانہ جنگی کرانا تھا۔ جس سے افغانستان میں نہ ختم ہونے والی لڑائی شرو ع ہو جاتی۔ تاہم طالبان کی جانب سے عام معافی کا اعلان کرنے اور ملک میں زیادہ دباؤ نہ بڑھانے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔

امریکہ نے افغانستان کے صوبہ پنج شیر میں شمالی اتحاد کے ذریعے بھی لڑائی شروع کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی جانب سے حمایت نہ ملنے پر یہ مزاحمت بھی ختم ہوگئی۔ جس کے بعد اب نہ صرف طالبان نے اپنی حکومت کو مضبوط کر لیا ہے۔ بلکہ دوسری جانب چین، ترکیہ، قطر اور متحدہ عرب امارات نے بھی طالبان حکومت کو مختلف شعبوں میں مدد فراہم کی ہے۔

طالبان حکومت نے سب سے پہلے زراعت پر توجہ دی۔ جس سے افغانستان میں خوراک کی قلت کوکم کیا گیا اور آئندہ دو برسوں میں افغانستان میں خوراک کی قلت مکمل طور ختم ہو جائے گی۔ طالبان حکومت نے عرب علما کے ساتھ بھی روابط بڑھائے۔ ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل فلسطین سمیت دیگر عرب ممالک کے علما نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران فلسطینی وفد کے سربراہ نے افغان وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کو بیت المقدس کا ایک ماڈل دیا تھا اور ساتھ درخواست کی تھی کہ مظلوم بیت المقدس مسلمانوں کو پکار رہی ہے۔ جس کے بعد طالبان حکومت نے اسرائیل کے خلاف سخت لہجہ اختیار کیا اور وفد کو یقینی دہانی کرائی کہ افغان حکومت مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ تین ہفتے قبل غزہ میں اسرائیلی حملے کے دوران فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے جو اسلحہ استعمال کیا گیا ہے۔ وہ امریکی اسلحہ تھا اور اسرائیل کی تحقیقات کے مطابق یہ اسلحہ افغانستان سے غزہ پہنچا ہے۔ جس کے بعد اسرائیل نے امریکہ سے رابطہ کر کے اسے اس خطرے سے آگاہ کیا اور کہا کہ اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو اسرائیل تباہی سے دو چار ہوجائے گا۔

ذرائع کے مطابق اس کے بعد امریکہ نے اسلحہ کے اسمگلرز کے ذریعے اسلحہ خریدنے کی کوششیں کیں۔ تاہم طالبان نے تین بڑے اسلحہ اسمگلرز کو گرفتارکر کے ان سے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ یہ اسلحہ یوکرین جنگ کیلئے خرید رہے تھے اور اس کی ادائیگی تیسرے ملک میں ہونی تھی۔ اس پر طالبان نے شمالی افغانستان سے متصل سرحد پر مزید چوکیاں بنا دی ہیں۔ جبکہ امریکہ نے مزید اسلحہ اسرائیل فلسطین جانے سے روکنے کیلئے افغانستان کے اندر ڈرون سرویلنس میں اضافہ کردیا ہے اور غیر مسلح ڈورن چوبیس گھنٹے ایران افغان سرحد کی نگرانی کر رہے ہیں۔

امریکہ کو شبہ ہے کہ یہ اسلحہ ایرانی اسمگلرز یا انٹیلی جنس اہلکاروں نے افغانستان سے اسمگل کرکے غزہ پہنچایا ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول اس معاملے میں امریکہ نے پاکستان سمیت دیگر دوست ممالک سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی سلسلے میں حال ہی میں قطر کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے قندھار میں طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ سے ملاقاتیں کیں اور ان سے اس سلسلے میں بات چیت کی تھی۔ لیکن وفد کو بتایا گیا کہ امریکہ نے جو اربوں ڈالرز کا اسلحہ چھوڑا ہے۔ جس میں جدید اور بعض چھوٹے ہتھیار سابق افغان فوجیوں کے پاس ہیں۔ وہ اسمگلرز کو فروخت کر رہے ہیں۔ جبکہ ان سابق اہلکاروں کے ایرانی اہلکاروں کے ساتھ بھی تعلق رہا ہے۔

وفد نے امریکی خدشات سے طالبان قیادت کو آگاہ کیا۔ تاہم انہوں نے امریکی خدشات کو مستردکرتے ہوئے وفد کو بتایاکہ افغانستان پر بیس سال امریکہ اور اتحادیوں کا قبضہ رہا ہے۔ ہرات میں اسرائیل نے امریکیوں کی مدد بھی کی ہے۔ اس لئے اسرائیلی مدد کی زد میں آنے والے افغان بھی فلسطینیوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ تاہم حکومتی سطح پر طالبان کی ایسی پالیسی نہیں۔

’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی فتح اور امریکہ کی شکست کے اثرات اب دنیا پر پڑنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین، ترکیہ، روس، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ چین خاموشی سے افغانستان میں بڑی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ جس کے ثمرات وسطی ایشیا تک پہنچیں گے۔

بعض ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے طالبان حکومت کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور بعض ممالک کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی صورت میں امریکہ کی جانب سے دھمکی دینے کے بعد افغان طالبان نے بھی حکمت عملی میں تبدیلی کرلی ہے۔ اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ طالبان اس جگہ کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں جس سے امریکہ اور یورپ کو تکلیف ہو اور یہ اسرائیل ہی ہو سکتا ہے۔ افغان حکومت دنیا نے تسلیم نہیں کی ہے۔ اس لئے وہ دنیا کے کسی معاہدے کا پابند نہیں۔ قطرمعاہدے کی بنیادی شق ہی یہ ہے کہ طالبان غیر ملکی جنگجوؤں کو افغانستان میں پناہ نہیں دیں گے۔ لیکن امریکی اسلحہ دینے کی کوئی پابندی نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی اسلحہ غزہ پہنچنا کوئی انہونی نہیں ہے۔ لیکن یہ اسرائیل کیلئے مستقل درد سر بن سکتا ہے۔ ایران سعودی تعلقات کی بحالی کے بعد اب تہران کا زیادہ فوکس اسرائیل پر ہی ہے۔ جس سے ایران کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر ایک ہزار امریکی جدید بندوقیں بھی غزہ کے مزاحمت کاروں کے ہاتھ لگ گئیں تو اسرائیل ان کے نشانے پر آجائے گا۔