نواز طاہر:
پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو بلیک میلنگ پر فارغ کیا گیا۔ پنجاب چیپٹر کے صدر رانا فاروق سعید کا کہنا ہے کہ۔ ذاتی مفادات پورے نہ کرنے پر اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نہ صرف پی ڈی ایم اور اس کی حکومت میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ بلکہ پارٹی موقف کے بھی برعکس چل رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے نہ تو سردار لطیف کھوسہ کے بیٹے سردار خرم لطیف کھوسہ کو اٹارنی جنرل بنایا اور نہ ہی اعتزاز احسن چوہدری کے بیٹے کو ٹکٹ جاری کیا۔ دونوں کی تصویریں اور نام پارٹی کی بنائی جانے والی ’دیوارِ شرمندگی‘ (wall of shame) پر بھی لگا دی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب چیپٹر کی جانب سے پارٹی کے مرکزی رہنمائوں سابق وزیر داخلہ بیرسٹر اعتزاز احسن چودھری اور سابق اٹارنی جنرل و پنجاب کے سابق گورنر سردار لطیف خان کھوسہ کو پارٹی سے’’فارغ‘‘ کر دیا گیا ہے۔ مرکزی قیادت کو دونوں رہنمائوں کی رکنیت ختم کرنے کی سفارشات بھجوادی گئی ہیں۔
یہ خیال بھی رہے کہ بیرسٹر اعتزاز احسن کے خلاف پہلے بھی پیپلز پارٹی کے پنجاب چیپٹر کی جانب سے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سخت ایکشن لیا گیا تھا۔ لیکن مرکزی قیادت کی مداخلت پر مزید کارروائی روک دی گئی تھی۔ تاہم اسی دوران سردار لطیف خان کھوسہ بھی پارٹی پالیسی کے برعکس اقدامات پر ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار دیئے گئے۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی میں نہ صرف یہ کہ اضافہ ہوا۔ بلکہ شدت آتی گئی۔ جس پر پیپلز پارٹی پنجاب نے ان کے خلاف انضباطی کارروائی کرتے ہوئے ان کی پارٹی کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن اس کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ کیونکہ پارٹی کے تنظیمی امور کے تحت مرکزی مجلسِ عاملہ کے اراکین یا مرکزی رہنمائوں کیخلاف ڈسپلنری ایکشن کے تحت پارٹی رکنیت ختم کرنے سے پہلے معاملہ مرکزی قیادت کو بھجوانا ضروری ہے۔
اس ضمن میں سفارشات ارسال کردی گئی ہیں اور ان کی تصویریں اور نام پارٹی کی بنائی جانے والی ’دیوارِ شرمندگی‘ (wall of shame) پر لگا دی گئی ہیں۔ سخت ایکشن کیلئے سفارشات ارسال کرنے کے بعد صوبائی تنظیم نے دونوں رہنمائوں کے رویے خاص طور پر پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی حکومتی جماعتوں پر تنقید کی وجوہات بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ دونوں رہنما ذاتی مفادات حاصل نہ ہونے پر بلیک میلنگ پر اتر آئے ہیں۔ تین روز قبل پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے قائم مقام صدر رانا فاروق سعید نے خاص طور پر اس روز پریس کانفرنس میں اپنے فیصلے سے میڈیا کو آگاہ کیا۔ جب پارٹی کی سابق سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ پر جشنِ بینظیر کے تحت لاہور کے لبرٹی چوک میں بڑے اجتماع کا انتظام کیا گیا تھا۔
رانا فاروق نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ اتحادی حکومت میں لطیف کھوسہ اپنے بیٹے کو اٹارنی جنرل بنوانا چاہتے تھے۔ جبکہ اتحادی حکومت کا شراکت دار ہونے کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کا جو حصہ بنتا تھا۔ اس کے مطابق یہ نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہو سکنے پر انہوں نے بلیک میلنگ شروع کر دی۔ رانا فاروق کے بقول ’’ہم نہیں چاہتے تھے کہ سردار لطیف کھوسہ اور ان کے صاحبزادے خرم لطیف کھوسہ پارٹی کی ریڈ لائن عبور کریں۔ اس لئے انہیں تمام عہدوں سے فارغ کردیا گیا ہے اور ان کی رکنیت کے خاتمے کیلئے بھی سفارشات بھجوادی گئی ہیں۔
رانا فاروق سعید نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’بیرسٹر اعتزاز احسن نے پہلے بھی پارٹی ڈسپلن کی شدید خلاف ورزی کی تھی اور ہم نے سخت ردِ عمل کا اظہار بھی کیا تھا۔ مگر مرکزی قیادت نے حکم دیا کہ انہیں نظرانداز کر دیا جائے۔ چنانچہ انہیں معافی دیدی گئی۔ مگر اب پھر وہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ سردار لطیف خان کھوسہ اور اعتزاز احسن پھر سے نہ صرف پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت میں انتشار پھیلا رہے ہیں بلکہ پارٹی کے موقف کے بھی برعکس چل رہے ہیں، کہ پیپلز پارٹی نے نہ تو سردار لطیف کھوسہ کے بیٹے سردار خرم لطیف کھوسہ کو اٹارنی جنرل بنایا اور نہ ہی اعتزاز احسن چوہدری کے بیٹے کو ٹکٹ جاری کیا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں رانا فاروق سعید نے کہا کہ ’’چودھری اعتزاز احسن اور سردار لطیف خان کھوسہ جیسے اسکائی لیب ہی پیپلز پارٹی کے کارکنوںکے استحصال کے موجب بنے ہیں۔ جن کا پارٹی میں بطور ورکر کوئی کنٹری بیوشن نہیں۔ بلکہ یہ فائدے اٹھانے والے ہیں۔ جب پارٹی پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو یہ سائیڈ پر ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ اعتزاز احسن نے ستّر کی دہائی میں کیا تھا۔ جنہیں بھٹو صاحب نے پہلے وزیر بنایا اور ہم نے انہیں رکن اسمبلی بنایا اور پھر سب سے پہلے وہی سائیڈ لائن ہوئے۔
اسی طرح سردار لطیف خان کھوسہ نے بھی فائدے ہی اٹھائے۔ انہوں نے بطور ورکر کبھی کام نہیں کیا۔ اب ہم نے مرکزی قیادت کو ان دونوں کی بنیادی رکنیت ختم کرنے اور پارٹی سے نکالنے کی سفارش کردی ہے۔ اب چیئرمین نے حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے یقینی طور پر بہتر ہی کریں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں رانا فاروق سعید نے کہا کہ ’’سردار لطیف کھوسہ کو وہم ہوگیا تھا کہ وہ پارٹی کے بہت بڑے لیڈر اور کنگ میکر بن گئے ہیں۔ انہیں یہ وہم پارٹی پالیسی کے مطابق وکلا تنظیموںکے الیکشن میں ہونے والی کامیابی کے باعث ہوا۔ جبکہ یہ پارٹی پالیسی کے مطابق امیدواروں کی حمایت تھی۔ کسی فرد واحد کی ذاتی تگ و دو نہیں تھی۔
پارٹی ہی کی وجہ سے وہ الیکشن جیتتے ہیں اور لیڈر بنتے ہیں۔ جو لوگ تن تنہا ’ہزاروں ساتھیوں‘ کے دعوے کرتے ہیں۔ وہ اگر انہی ’ہزاروں ساتھیوں اور کارکنوں‘ کے ساتھ الیکشن جیت سکتے ہوں تو پارٹی میں کیوں آئیں۔ یہ دونوں صاحبان بھی ’ہزاروں ساتھیوں‘ کے بل بوتے پر سیاست کرلیں۔ میں اپنی قیادت سے ہمیشہ ایک ہی بات کرتا ہوں کہ ورکر کے طور پر کام نہ کرنے اور کارکردگی نہ دکھانے والوں کو پارٹی میں اسکائی لیب نہ بنایا جائے۔ بلکہ ورکرز ہی کو آگے لایا جائے‘‘۔
اس سوال پر کہ کیا سردار لطیف کھوسہ اور بیرسٹر اعتزاز احسن چودھری پر پیپلز پارٹی کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوگئے ہیں؟ رانا فاروق سعید نے کہا ’’ایسا حتمی فیصلہ تو چیئرمین نے ہی کرنا ہے۔ جہاں تک صوبائی تنظیم کا معاملہ ہے تو وہ اپنا فیصلہ سفارشات کی صورت میں بھجوا چکی ہے‘‘۔