الیکشن کمیشن چودہ پندرہ دسمبر کو انتخابی شیڈول کا اعلان کر سکتا ہے، فائل فوٹو 
الیکشن کمیشن چودہ پندرہ دسمبر کو انتخابی شیڈول کا اعلان کر سکتا ہے، فائل فوٹو 

نواز شریف کی واپسی کی تاریخ پر مشاورت جاری

امت رپورٹ :
نون لیگ کے قائد نواز شریف کی پاکستانی واپسی سے متعلق تاریخ کا تعین کرنے کے لئے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس پر قانونی ٹیم بھی کام کر رہی ہے۔ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ دبئی میں قیام کے دوران نواز شریف کی اپنے خاندان سے مشاورت کے بعد حتمی دن کا فیصلہ کرلیا جائے گا۔ اس حوالے سے جولائی کے آخری ہفتے یا اگست کے پہلے ہفتے کی کوئی تاریخ طے کی جا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر ایک ہفتہ قبل شائع رپورٹ میں نواز شریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کے حوالے سے یہ ذکر کر دیا گیا تھا کہ بقرعید کے بعد نون لیگی قائد کی پاکستان واپسی کا اصولی فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ صرف تاریخ کا تعین کرنا باقی ہے۔
نون لیگی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف کی واپسی سے متعلق تاریخ کا فیصلہ کرتے وقت پارٹی کی قانونی ٹیم کے مشورے کو اہمیت دی جائے گی۔

اس سلسلے میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں بننے والی ٹیم مختلف قانونی پہلوئوں کو دیکھ رہی ہے۔ جس میں سرفہرست نواز شریف کی سزا کا معاملہ ہے۔ چونکہ خرابی صحت کے سبب وہ دوران سزا جیل سے لندن روانہ ہوئے تھے۔ لہٰذا واپسی پر انہیں مختصر وقت کے لئے پہلے جیل جانا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ بطور اشتہاری عدالت میں بھی سرنڈر کرنا پڑے گا۔ ایک اہم نون لیگی عہدیدار کے بقول ’’میاں صاحب پہلے بھی عدالتوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ اگر دوبارہ عدالت میں جانا پڑا تو جائیں گے‘‘۔

یاد رہے کہ نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس، دونوں میں سزائیں ہوئی تھیں۔ ان کیسز کے خلاف ان کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ چونکہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ چنانچہ انہیں اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔ نون لیگی ذرائع کے بقول قانونی ٹیم اب ان پہلوئوں پر غور کر رہی ہے کہ واپسی پر نواز شریف کو جیل جانے سے بچانے کے لئے عدالت سے کیسے ریلیف لیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف آپشنز زیر غور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا کو سب جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ تب تک وکلا ان کی بریت کے لئے عدالت میں کیس لڑیں گے اور انہیں امید ہے کہ وہ دونوں کیسز میں نواز شریف کو جلد بری کرا لیں گے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی بریت ہو چکی ہے۔ جبکہ قانونی ٹیم کے خیال میں العزیزیہ کا کیس بھی کمزور ہو چکا ہے۔

نون لیگی ذرائع کے مطابق نواز شریف کی سزا کے خاتمے کے مختلف آپشنز پر قانونی ٹیم مسلسل کام کر رہی ہے اور پارٹی قائد کی واپسی کے فوری بعد اس سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ جبکہ پارٹی قیادت کے خیال میں نا اہلی کو پانچ برس تک محدود کرنے کے قانون کی منظوری کے بعد نواز شریف کی سیاست میں واپسی کا راستہ کھل چکا ہے۔ سزائوں کے خاتمے کے بعد ان کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔

واضح رہے کہ ایوان زیریں قومی اسمبلی کے اجلاس میں نا اہلی کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس کرنے کا بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔ چند روز قبل ایوان بالا سینیٹ سے یہ بل منظور کرا لیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کی منظوری کے بعد اب اسے دستخط کے لئے صدر مملکت کو بھیجا جائے گا۔ جس کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا۔ لیگی قیادت سمجھتی ہے کہ صدر مملکت عارف علوی کی حج کے لئے سعودی عرب روانگی کے سبب قائمقام صدر کا منصب سنبھالنے والے صادق سنجرانی اس بل پر دستخط کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

یوں اس قانون کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نا اہلی ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ ان کی نااہلی کو پانچ برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ دونوں سیاسی رہنمائوں کو دو ہزار سترہ میں نا اہل کیا گیا تھا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا سپریم کورٹ اس قانون کے خلاف بھی حرکت میں آتا ہے یا نہیں؟ نون لیگی ذرائع کا خیال ہے کہ پہلے ہی حکومت کے مختلف قوانین کے خلاف کارروائی کر کے سپریم کورٹ کا مخصوص بنچ تنازعات کا شکار ہے۔ ایسے میں ایک نیا پینڈورا باکس کھولنے سے گریز کیا جائے گا۔ آنے والے چند دنوں میں اندازہ ہوجائے گا کہ اس حوالے سے نون لیگی قیادت کا اندازہ کس قدر درست ثابت ہوتا ہے۔

نواز شریف کی پاکستان واپسی سے متعلق یہ خبریں بھی گردش میں تھیں کہ اس سلسلے میں چودہ اگست کا انتخاب کیا گیا ہے۔ تاہم نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اس سے پہلے واپس آنا چاہتے ہیں۔ اس لئے جولائی کے آخری ہفتے یا اگست کے پہلے ہفتے کی کسی تاریخ پر زیادہ غور کیا جارہا ہے۔

ان ذرائع کے بقول ممکنہ طور پر آٹھ اگست کو موجودہ اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی۔ لہٰذا پارٹی قیادت بھی چاہتی ہے کہ نواز شریف اپنی حکومت کے دور میں ہی واپس آکر جتنی جلدی ممکن ہو۔ عدالتوں سے ریلیف لے لیں۔ نگراں حکومت کی موجودگی میں بہت سے ایڈوانٹیج سے محروم ہونا پڑے گا۔ چنانچہ واپسی کے لئے جولائی کے آخری ہفتے کو زیادہ موزوں تصور کیا جارہا ہے۔ حتمی فیصلہ نواز شریف دبئی میں بیٹھ کر خاندان کے قریبی لوگوں سے مل کر کریں گے۔ جس میں قانونی ٹیم سے بھی ان پٹ لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ نواز شریف ہفتے کے روز لندن سے دبئی پہنچے تھے۔ جبکہ اسی روز مریم نواز بھی وہاں پہنچیں۔ دبئی میں نواز شریف کو سرکاری پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ جبکہ دونوں باپ بیٹی کی دبئی میں اہم لوگوں کے علاوہ شاہی خاندان سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اتوار کو مصروف دن گزارا۔ دبئی میں نواز شریف کو ملنے والے سرکاری پروٹوکول کو نون لیگی ذرائع بہت اہمیت دے رہے ہیں اور ان کے بقول نواز شریف کا استقبال مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر کیا جارہا ہے۔

ان ذرائع کے مطابق اگرچہ اب نواز شریف کی واپسی کے لئے پاکستان میں حالات سازگار ہوچکے ہیں۔ تاہم یہ طے تھا کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں۔ وہ ہر صورت عام انتخابات سے قبل پاکستان پہنچیں گے۔ پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ پچھلے سوا برس میں مہنگائی کو لے کر پارٹی کے ووٹ بینک کو جو دھچکا لگا ہے۔ نواز شریف کی واپسی سے متاثرہ ووٹ بینک بحال ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں نون لیگ عام انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ بعد ازاں استحکام پاکستان پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ یوں نواز شریف کا چوتھی بار وزیر اعظم بننا خارج از امکان نہیں۔

نون لیگی قیادت کی یہ توقعات کس قدر پوری ہوتی ہیں؟ فوری طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم یہ طے ہے کہ نواز شریف عنقریب پاکستان کی سیاست میں دوبارہ دھماکے دار انٹری دینے کے لیے تیار ہیں۔