عمران خان :
ملک کے معروف فیشن ڈیزائنر بڑے ٹیکس چور نکلے۔ دو کمپنیوں ٹیکس مارک اور شاہ برادرز کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جبکہ کھادی اور فیئر ڈیل سمیت کراچی سے اسلام آباد تک مہنگے ملبوسات فروخت کرنے والی مشہور کمپنیوں، فیشن ڈیزائنرز اور بوتیک مالکان کیخلاف تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
ایف بی آر کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی میں ایک ایسی ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی بڑی فیکٹری بھی کام کرتی رہی۔ جس میں تھرڈ پارٹی ایچ آر کمپنیوں کے ذریعے کاریگروں کو بھرتی کر کے معروف فیشن ڈیزائنرز کے لئے مال بنوایا جاتا تھا۔ اس فیکٹری میں چمن، کوئٹہ، سست بارڈر سے اسمگل ہوکر آنے والے کپڑے کی بھاری مقدار استعمال کی جاتی تھی۔ جبکہ مہنگے اور نامی گرامی فیشن ڈیزائنرز کمپنیوں کیلیے کام کرنے والے مزدوروں کی بھی حق تلفی کی جاتی رہی۔ تاہم جب بھی اس مینو فیکچرنگ یونٹ کے حوالے سے کوئی شکایت موصول ہوئی تو معروف فیشن ڈیزائنرز کمپنیوں نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ملک میں خواتین، مردوں اور بچوں کے فینسی اور مہنگے ڈیزائنرز کے ملبوسات کی صنعت میں گزشتہ کئی برسوں سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کی جارہی ہے۔ جس کی اطلاعات ملنے کے بعد ڈائریکٹوریٹ جنرل ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کی جانب سے کارروائی کیلئے کراچی ڈائریکٹوریٹ کو خصوصی ٹاسک دیا گیا۔ جس پر ڈائریکٹر کی زیر نگرانی اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور سینئر آڈیٹر سعید خان کی سربراہی میں بننے والی ٹیم نے فیشن ڈیزائننگ کے بڑے برانڈز بشمول کھادی، شاہ برادرز، ٹیکس مارک، فیئر ڈیل، گل احمد، الکرم اور دیگر کے مینوفیکچرنگ یونٹس میں استعمال ہونے والے درآمد شدہ کپڑے، بلکہ ساتھ ہی ان برانڈز سے ہونے والی ریٹیل سیل اور اس پر لاگو سیلز ٹیکس کے حوالے سے بھی مکمل چھان بین کی گئی۔ اس دوران متعدد کمپنیوں کے حوالے سے بڑے پیمانے پر گھپلے سامنے آئے۔ جس میں ٹیکس مارک اور شاہ برادرز شامل تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کی کمپنیوں کی جانب سے اپنے فیکٹری یونٹوں میں سست، چمن اور دیگر مقامات سے اسمگل ہوکر آنے والا فینسی غیر ملکی کپڑا بھاری مقدار میں استعمال کیا جاتا رہا۔ جس کی مد میں بھاری ٹیکس چوری کی گئی اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان فیکٹریوں سے معروف فیشن ڈیزائنرز کیلئے تیار ہونے والے ملبوسات کی ان بوتیک اور ڈیزائنرز کے آئوٹ لٹس سے جو سیل کی گئی۔ اس کی اصل مقدار اور مالیت کو بھی نہ صرف چھپایا جاتا رہا۔ بلکہ اس پر شہریوں سے وصول کیا گیا بھاری ٹیکس بھی ایف بی آر میں جمع نہیں کرایا گیا۔ اس طرح قومی خزانے کو دو طرفہ نقصان پہنچا کر کروڑوں روپے کا بھاری منافع بٹورا گیا۔
مزید انکشاف ہوا کہ یہ معروف برانڈکمپنیاں اپنے لئے خام مال یعنی کپڑا در آمد کرنے میں انڈر انوائسنگ یعنی دستاویزات میں جعلسازی کرکے مقدار اور مالیت کم ظاہر کرکے لاتی رہیں۔ جس پر مزید تحقیقات کی جا رہی ہے۔
انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ایف بی آر کراچی میں مذکورہ انکوائری میں ثبوت اور شواہد سامنے آنے کے بعد ابتدائی طور پر شاہ برادرز کے مالکان محمد توصیف ولد محمد بلال اور ٹیکس مارک کے مالک فیضان اقبال لوہیا ولد محمد اقبال کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر فیشن ڈیزائنرز کمپنیوں کیخلاف بھی تحقیقات جاری ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ جب TexMark نامی صنعتی یونٹ پر کارروائی کی گئی تو انکشاف ہوا کہ یہیں سے کھادی، سمیت کراچی اور دیگر شہروں کے معروف بوتیک اور فیشن ڈیزائنرز کے معروف برانڈز کیلیے ان کے آرڈر کے مطابق مال تیار کیا جاتا ہے۔ جس کے لیے تھرڈ پارٹی ایچ آر کمپنی کے ذریعے ملازمین اور کاریگر رکھے جاتے ہیں۔ جنہیں بعض اوقات کھادی کی وردیاں تک دی جاتی رہیں۔ تاہم جب کوئی تکنیکی معاملہ یا ورکرز کے ساتھ زیادتی کا واقعہ سامنے آتا ہے تو کھادی کی انتظامیہ اس فیکٹری یونٹ سے اور لازمین سے لاتعلقی کا اظہار کرکے خود کو بری الزمہ قرار دے دیتی ہے۔ تاہم اب کچھ اہم ثبوت سامنے آنے کے بعد TexMark کے حوالے سے ٹیکس چوری، اسمگلنگ کے کپڑے کا استعمال اور دیگر جرائم کے الزامات میں کھادی کے مالکان اور متعلقہ انتظامیہ کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔
اس ضمن میں آئی اینڈ آئی حکام نے بتایا کہ مذکورہ فیشن ڈیزائنر پر جعلی سیلز ٹیکس انوائسز سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے اور فیشن ڈیزائنر کی جانب سے ابتدائی طور پر 14 کروڑ روپے ریونیو کی مد میں نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مقدمہ درج ہوتے ہی مذکورہ فیشن ڈیزائنر نے 50 لاکھ کی ضمانت قبل از گرفتاری کرالی ہے۔ آئی اینڈ آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کے دیگر نامور فیشن ڈیزائنرز کے بھی جعلی سیلز ٹیکس انوائسز میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جن کے خلاف آئی اینڈ آئی، ایف بی آر عیدالاضحی کے بعد کریک ڈائون کا آغاز کرے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ برآمدات کے نام پر کپڑے سمیت دیگر سامان کی درآمد کرنے والے تاجروں کے خلاف ہونے والی آڈٹ تحقیقات میں اربوں روپے گھپلوں کا انکشاف ہونے پر سائٹ کے علاقے میں ولیکا روڈ پر قائم میسرز فیئر ڈیل ٹیکسٹائل کے احاطے میں درآمد کیے گئے سامان کی فزیکل جانچ پڑتال کی گئی تو انکشاف ہوا کہ مالکان نے ٹیکسٹائل شعبے کے لئے ایگزامینشن فرام سیلز(ای ایف ایس) کا غلط فائدہ اٹھایا۔ مل کے گودام سے 5 میٹرک ٹن کپڑے کی موجودگی پائی گئی۔ جبکہ 106 میٹرک ٹن کپڑے کا ریکارڈ ہی غائب تھا۔
تحقیقات میں فیئر ڈیل ٹیکسٹائل کمپنی کے ایکسپورٹ یونٹ کے معائنہ کے دوران فیکٹری مینوفیکچرنگ ایریا بند پایا گیا۔ مشینیں خستہ حالت میں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیکٹری کافی عرصے سے غیر فعال ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درآمد کنندہ سامان کو درآمد کرنے اور بیچنے کے لیے مینو فیکچرنگ اسٹیٹس کا غلط استعمال کر رہا تھا۔ یعنی ایکسپورٹ کا سامان بنانے کی آڑ میں رعایتی اسکیم پر فینسی کپڑا در آمد کرکے مقامی فیشن ڈیزائنر کمپنیوں اور ڈیلروں کوکمرشل نرخوں پر سپلائی کیا جا رہا تھا۔
تحقیقات میں پنجاب اور کراچی کے بعض بوتیک، کارخانوں اور خواتین کے فینسی ڈریس فروخت کرنے والوں اور فیشن ڈائنرز کمپنیوں کے اس گروپ سے کاروباری تعلقات اور لین دین کے ثبوت بھی سامنے آئے ہیں۔