بدعنوان اہلکار جیب گرم کر کے مہم ناکام بنا رہے ہیں، فائل فوٹو
بدعنوان اہلکار جیب گرم کر کے مہم ناکام بنا رہے ہیں، فائل فوٹو

’’سلنڈر بم‘‘ رشوت خوری کا ذریعہ بن گئے

اقبال اعوان :
سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں شروع کی جانے گیس سلنڈر والی گاڑیوں کے خلاف کارروائیاں رشوت خوری کی نذر ہونے لگیں۔ گزشتہ ماہ سندھ حکومت کے محکمہ ٹرانسپورٹ نے کراچی سمیت سندھ بھر میں سی این جی اور خاص طور پر ایل پی جی سلنڈر والی اسکول و مدارس کی وین، پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں اور رکشوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا حکم دیا تھا۔ ابتدا میں ٹریفک پولیس اور محکمہ ٹرانسپورٹ کی ٹیمیں نمائشی کارروائی کرتی رہی تھیں۔ تاہم اب یہ معاملہ رشوت لے کر چلایا جا رہا ہے۔ دو روز قبل سرگودھا میں مسافر وین میں گیس لیکج کے بعد سلنڈر پھٹنے سے کئی انسانی جانیں ضائع ہوگئی تھیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ کئی سال قبل جب ڈیزل کی قیمت مہنگی تھیں اور سی این جی سستی تھی اس دوران کوچیں، بسیں، کوسٹرز، ٹویوٹا ہائیس،کاریں ، ٹیکسیاں، رکشے، مزدا سب سی این جی پر کردیئے گئے تھے اور بعد میں سی این جی مہنگی ہوگئی تو اکثریت نے سی این جی کٹیں رہنے دیں اور ڈیزل و پٹرول کا بھی سسٹم کرالیا۔ کراچی میں سی این جی یا ایل پی جی کے سلنڈر کی چیکنگ کا کام انتہائی مشکل کام ہے۔

ابراہیم حیدری کے روڈ پر ہائیڈرو کاربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی لیب ہے، وہاں سلنڈر دینا ہوتا ہے۔ اگر خستہ حال ہو اور مزید کام کے قابل نہیں ہو تو اسے کاٹ کر ضائع کردیتے ہیں۔ ورنہ سرٹیفکیٹ دے کر واپس کر دیتے ہیں۔ جبکہ بیشتر لوگ خستہ حال، زنگ آلودہ اور انتہائی پرانے سلنڈر استعمال کرتے ہیں۔ مال بردار گاڑیوں ہوں، انٹر سٹی کوچیں ہوں، لوکل پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں ہوں یا رکشے، ٹیکسیاں ہوں۔ ہر کوئی مرضی سے سی این جی، ایل پی جی سلنڈر پر گاڑی چلارہا ہے۔

سرکاری سطح پر بار بار اعلان کیا گیا کہ سی این جی سلنڈر میں ایل پی جی فلنگ نہ کرائیں اور ایل پی جی سلنڈر میں سی این جی نہ بھروائیں۔ اس کے باوجود شہر میں ایل پی جی کی فلنگ کی دکانوں پر بینرز لگے ہیں کہ سی این جی سلنڈر والے گیس بھروا سکتے ہیں۔ اس لیے سی این جی کٹ والے کام کراکے گاڑی ایل پی جی پر چلارہے ہیں۔ اب ایل پی جی 180 روپے کلو ہے جبکہ سی این جی 300 روپے کلو۔ خستہ حال سلنڈر کی مرمت نہ ہونے پر آگ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے کہ ڈرائیور یا مسافر سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں۔ کراچی میں اسکول اور مدارس کی وینز کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے جن میں اکثریت سی این جی یا ایل پی جی پر چل رہی ہیں۔

سلنڈر سیٹوں کے نیچے، چھت پر یا باڈی کے نیچے لگائے گئے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ ڈیزل یا پٹرول پر چلارہے ہیں۔ کراچی میں سلنڈر پھٹنے، وائرنگ جلنے اور پائپ میں آگ لگنے سمیت کئی واقعات ہوچکے ہیں اور کئی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ اس وقت کراچی میں بیشتر رکشے، ٹیکسیاں اور دیگر چھوٹی پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں ایل پی جی پر چل رہی ہیں۔

سندھ حکومت کے سلنڈر والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون کے اعلان کے بعد جہاں مقامی انتظامیہ کو فائدہ ہونے لگا ہے، وہیں ٹریفک پولیس کی کراچی سمیت سندھ بھر میں لاٹری نکل آئی ہے کہ کوچ ، بس، مزدا، رکشے، ٹیکسیاں، وین اور کوسٹرز سمیت ہر دوسری تیسری گاڑی میں سلنڈر لگا ہے اور کوئی بھی ہٹانے کو تیار نہیں ہے۔ کراچی میں ٹریفک پولیس اہلکار گیس سلنڈر والی گاڑیوں کو روکتے ضرور ہیں، تاہم سلنڈر نکالنے کی کارروائی کے بجائے مک مکا تک معاملہ چل رہا ہے۔