علی جبران :
آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا کہیں گے؟ جو دعویٰ کرے کہ اسے سردی نہیں لگتی۔ لیکن اس نے موٹے چمڑے کی جیکٹ کے نیچے تین دبیز سوئٹر پہن رکھے ہوں۔ جو کہے کہ وہ پیاسا نہیں اور پورا لیٹر پانی غٹا غٹ چڑھا جائے۔ جو تان لگائے کہ ’’مرد کو درد نہیں ہوتا‘‘ اور ایک کانٹا چبھنے پر آسمان سر پر اٹھالے۔ جو ’’میں کسی سے نہیں ڈرتا‘‘ کی تکرار کے ساتھ ڈرپوکی کی مثالیں قائم کر دے۔ جو للکارے کہ وہ موت سے خوفزدہ نہیں، اور اپنے اردگرد مضحکہ خیز حفاظتی حصار قائم کر کے دنیا کے لئے تماشا بن جائے۔ جو ہر وقت یہ گردان کرتا ہو کہ وہ چوبیس گھنٹے گرفتاری کے لئے تیار ہے اور گرفتاری سے بچنے کے لئے سانحہ 9 مئی کرادے، حتیٰ کہ اپنی پوری پارٹی تباہ کر ڈالے۔
زمان پارک کی پناہ گاہ میں محصور ایک خود ساختہ انقلابی ان ہی ساری کیفیات کی مجسم تصویر بنا بیٹھا ہے۔
عمران خان کی اس کیفیت کو قومی سیاسی امور اور عالمی سیاست پر لکھنے والے تجزیہ کار شاہد خان نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں بڑے مدلل طریقے سے بیان کیا ہے۔ یہ مضمون عالمی جریدے یوریشا ریویو میں شائع ہوا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پرسیکیوٹری ڈیلیوژن‘‘ کی اصطلاح کا استعمال نفسیات میں کسی ایسے شخص کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ جسے ہر وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے آس پاس موجود ہر شخص اسے نقصان پہنچانے یا مارنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
عمران خان اسی نفسیاتی کیفیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں افراد پر حملے عام ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی چیئرمین خود پر ہونے والے حملے کے بعد سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں قتل کرنے کے دس سازشی پلاٹ بنائے گئے۔ ’’مجھے کوئی ایسا انجکشن لگایا جائے گا جس سے دل کا دورہ پڑے گا اور میری جان چلی جائے گی‘‘۔ ’’میرے کھانے میں زہر ملا دیا جائے گا‘‘۔ ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ میرے ہیلی کاپٹر کے ایندھن میں پانی ملایا گیا تاکہ ہیلی کاپٹر پہاڑوں میں گر کر تباہ ہوجائے اور میں مرجائوں‘‘۔ ’’میں نے صوابی میں ایک شخص کو دیکھا جو راکٹ چلا رہا تھا‘‘۔ ’’زرداری نے میرے قتل کی سپاری فاٹا میں دو لوگوں کو دی ہے‘‘۔ ’’جوڈیشل کمپلیکس میں میری پیشی کے موقع پر مجھے قتل کرنے کے لئے فیلڈنگ سیٹ کی گئی تھی‘‘۔
ان الزامات کے باوجود عمران خان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر پوچھا جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ان پر چونکہ حملہ ہوچکا ہے۔ اس لئے مزید ثبوت کی ضرورت نہیں۔ شاید آنے والے دنوں میں وہ مزید ’’انکشافات‘‘ کریں۔ وہ اپنی ہر تقریر میں اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔ مضمون نگار کے بقول عمران خان حقیقی معنوں میں ’’پرسیکیوٹری ڈیلیوژن‘‘ میں مبتلا ہیں۔ سادہ لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’’سائیکو پیتھ‘‘ بن چکے ہیں۔ ایک سائیکو پیتھ یا نفسیاتی مریض جو اپنی موت کے خوف سے پاگل ہوجاتا ہے اور اپنی جان بچانے کے لئے ہزاروں لوگوں کو مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
کئی لوگوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ دنیا کے متعدد رہنما عمران خان سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ تاہم چیئرمین پی ٹی آئی جتنی مضحکہ خیز سیکورٹی اپنے اردگرد رکھتے ہیں۔ کوئی اور نہیں رکھتا۔ دنیا میں مثال نہیں ملتی کہ کوئی سر پر بالٹی رکھ کر گھومتا ہو۔ پرویز مشرف پر دو خود کش حملے ہوئے۔ جس سے ان کی گاڑی کو نقصان پہنچا۔ ڈرائیور اور ساتھی لقمہ اجل بن گئے۔ اس وقت دہشت گردی عروج پر تھی۔ اس کے باوجود پرویز مشرف اس قدر حفاظتی حصار میں کبھی نہیں گھومے۔
(ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ جنہیں شاید مضمون نگار نے طوالت کے سبب قلم انداز کیا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر بھی کئی خود کش حملے ہوچکے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق پر حال ہی میں خود کش حملہ ہوا۔ اے این پی کی صف اول قیادت کو دہشت گرد نشانہ بنا چکے ہیں۔ میاں افتخار کا جواں سال بیٹا دہشت گردی کے حملے میں جاں بحق ہوا اور ان کو بھی مسلسل موت کے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ نون لیگی لیڈر شپ کے لئے بھی اس نوعیت کے خطرات ہیں لیکن کسی نے اپنے لئے مضحکہ خیز حفاظتی انتظامات نہیں کئے)۔
جب عمران خان کہتے ہیں ’’اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو کارکنان گھر میں مت بیٹھیں۔ ہمارا نعرہ موت کے خوف سے نجات دلانا ہے۔ لوگ آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔ اس لئے اگر میں گرفتار ہوا تو سب باہر نکلیں‘‘۔
آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان اپنے کارکنان سے کہہ رہے ہیں ’’اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو میرے لئے لڑو، ایک اور سانحہ نو مئی برپا کردو، جو موت مجھ پر مسلط کی جارہی ہے، وہی موت تم سب اپنے آپ پر مسلط کرلو، لیکن مجھے بچالو‘‘۔ یہ ہے ’’حقیقی آزادی‘‘۔ اپنی نام نہاد بہادری کا جھوٹا بھرم رکھنے کے لئے بظاہر پی ٹی آئی چیئرمین واضح الفاظ میں یہ اپیل نہیں کر سکتے۔ لیکن ان کے ویڈیو خطابات اور تقاریر کا اصل لب لباب یہی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے دل کی بات پر پردہ ڈالنے کے لئے حقیقی آزادی، دین کا حکم، غلامی سے نجات اور خوف کی زنجیریں توڑ دینے جیسے نعرے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم وہ خود خوف کی زنجیریں توڑنے کے لئے تیار نہیں۔
یہ الگ مسئلہ ہے کہ عمران خان کو سیاسی رہنما سے نفسیاتی مریض بنانے میں کس نے بڑا کردار ادا کیا۔ شاید ان کے قریب ترین لوگوں کا اس میں بنیادی رول ہے۔
ایک بلاگر سید محمد زاہد نے پہلی صدی قبل مسیح کے لاطینی شاعر اور فلسفی لیورییٹس کا یہ مقولہ لکھا تھا کہ ’’موت کا خوف انسان میں انتہائی نامعقول خیالات و احساسات کو جنم دیتا ہے۔ جو اس کے لئے اور معاشرے کے لئے بھی نقصان دہ ہوسکتے ہیں‘‘۔
موت کے خوف کو لے کر کسی کا ایک مضمون نظر سے گزرا تھا۔ جس میں یہ دلچسپ واقعہ درج تھا ’’ایک بار ایک شخص موت کے خوف سے ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا۔ وہ گائوں کے ایک ویران راستہ پر تنہا جارہا تھا۔ خوف سے بچنے کے لئے قدرے تیز چل رہا تھا۔ پھر وہ ڈر کی وجہ سے بھاگنے لگا۔ شام کا وقت تھا۔ ہر چیز ساکن اور خاموش تھی۔ دور دور تک کوئی موجود نہیں تھا۔ جب اس نے تیز دوڑنا شروع کیا تو اسے محسوس ہوا کہ کوئی تیز قدموں کے ساتھ اس کے پیچھے دوڑا چلا آرہا ہے۔
اس نے سوچا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس کا خوف مزید بڑھ گیا۔ خوف کے اس عالم میں اس نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا۔ اس کو ایک سایہ اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیا۔ وہ سایہ خود اس کا اپنا تھا۔ مگر یہ سوچ کر کہ ایک سایہ اس کے تعاقب میں ہے۔ اس نے اپنی رفتار اور تیز کردی۔ اس کے بعد وہ شخص کہیں رک نہ سکا۔ وہ اپنی رفتار جتنی تیز کرتا۔ اس کا سایہ اتنی رفتار سے اس کے پیچھے آتا ہوا محسوس ہوتا۔ یہاں تک کہ وہ نیم پاگل ہوگیا۔ رات کی تاریکی میں اس کا سایہ غائب ہوگیا تھا۔ مگر وہ رکا نہیں۔ دن کا اجالا ہوتے ہی پھر دوڑنا شروع کر دیا۔
اس کے حساب سے رات کے آرام کے دوران سائے نے وہ فاصلے طے کرکے اس کو دوبارہ پکڑ لیا تھا۔ یہ خیال آنے کے بعد اس نے رات میں آرام کرنا بھی چھوڑ دیا۔ پھر وہ مکمل طور پر پاگل ہوگیا۔ کھانا پینا بھی ترک کر دیا۔ آخر کار ایک دن جان سے گزر گیا۔ جس جگہ وہ مرا تھا۔ گائوں کے لوگوں نے اسی جگہ ایک درخت کے سائے تلے اس کی قبر بنادی اور ایک درویش سے دریافت کیا کہ وہ اس کی قبر کے کتبے پر کیا لکھوائیں گے۔ اس درویش نے یہ جملہ تجویز کیا ’’یہاں وہ شخص آرام کر رہا ہے جو اپنے سائے سے جدا ہوگیا‘‘۔