امت رپورٹ:
نواز شریف کو پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے اٹھائیس جولائی دو ہزار سترہ میں نااہل قرار دیا تھا۔ یوں رواں ماہ کی اٹھائیس تاریخ کو نون لیگی قائد کی نااہلی کی چھٹی برسی ہوگی۔
دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے سر پر بھی اس وقت نااہلی کی ایک سے زائد تلواریں لٹک رہی ہیں۔ تاہم باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ان کے لئے فوری خطرہ توشہ خانہ کیس ہے۔ کیونکہ قانونی ماہرین کے نزدیک یہ اوپن اینڈ شٹ کیس اب تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اگرچہ عمران خان اس معاملے کو ایک بار پھر اسلام آباد ہائی کورٹ لے گئے ہیں۔ لیکن پہلے کی طرح اب بھی انہیں ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس تناظر میں یہ خارج از امکان نہیں کہ اٹھائیس جولائی چیئرمین پی ٹی آئی کی پارلیمانی سیاست سے پانچ سالہ نااہلی کا دن بن جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، جس کا امکان موجود ہے، تو اٹھائیس جولائی ایسی تاریخ بن جائے گی۔ جب دو پارٹیوں کے سربراہوں کو سیاست سے فارغ ہونا پڑا۔ یعنی حساب کتاب برابر ہوجائے گا۔ جبکہ اٹھائیس کا ہندسہ دونوں کے لیے بدشگون بھی قرار پا سکتا ہے۔ توشہ خانہ کیس کو لے کر یہ خطرہ خود پی ٹی آئی کی بچی کھچی قیادت بھی محسوس کر رہی ہے۔ اس کیس میں کافی اتار چڑھائو آتے رہے ہیں۔ جس کا تفصیلی ذکر ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر کیا جاچکا ہے۔
’’امت‘‘ کی تحقیق کے مطابق توشہ خانہ کیس کے حوالے سے عمران خان اب تک کم از کم اکیس مواقع پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ اس کیس کو لے کر اپنے ویڈیو خطابات اور تقاریر میں وہ تواتر سے جو کچھ کہہ رہے ہیں۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’میرا تحفہ، میری مرضی‘‘۔ چیئرمین پی ٹی آئی یہ تحریری اعتراف کرچکے ہیں کہ بطور وزیراعظم اپنے دور میں انہوں نے چار قیمتی تحائف فروخت کئے تھے۔
جبکہ دو کروڑ سولہ لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف کو بیچ کر تقریباً پونے چھ کروڑ روپے کمائے۔ لیکن اصل کیس یہ ہے کہ عمران خان نے دانستہ توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کو چھپایا۔ جبکہ ان کی فروخت بھی الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کی۔ یوں وہ براہ راست آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی زد میں آتے ہیں۔ جس کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کو پارلیمانی سیاست سے باہر کردیا گیا تھا۔
توشہ خانہ کیس کے بارے میں اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کے لئے عمران خان ایک اور نقطہ اٹھاتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی تو توشہ خانہ سے انتہائی کم قیمت کے عوض قیمتی تحائف حاصل کئے تھے۔ انہیں کوئی کیوں نہیں پوچھتا۔ حالانکہ چیئرمین پی ٹی آئی کو خود بھی بخوبی یہ پتہ ہے کہ ان کے کیس کا نواز شریف اور آصف زرداری کے معاملے سے موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔ دونوں نے اگرچہ انتہائی کم ادائیگی کرکے مہنگے تحفے حاصل کئے تھے۔ تاہم اس وقت بیس فیصد ادائیگی کے بعد تحائف حاصل کرنے کا قانون تھا۔
جبکہ نواز شریف اور آصف زرداری نے یہ تحائف الیکشن کمیشن کے سالانہ گوشواروں میں بھی ظاہر کئے۔ اس کے برعکس عمران خان نے تحائف حاصل کرکے نہ صرف بیچ ڈالے۔ بلکہ ان تحائف اور ان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کو اپنے سالانہ گوشواروں میں ظاہر بھی نہیں کیا۔ پھر یہ کہ توشہ خانہ کے قیمتی تحائف کی اپنے طور پر مالیت کا تخمینہ لگاکر انہوں نے قانون کی سنگین خلاف ورزی کی۔ تاکہ قیمتی تحائف کو بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ واضح رہے کہ توشہ خانہ کے تحائف کی مالیت کا تخمینہ کابینہ ڈویژن کی ایک کمیٹی کرتی ہے۔
اسی طرح نواز شریف اور آصف زرداری نے توشہ خانہ سے جو بھی تحائف لئے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی فروخت نہیں کیا۔ اس کے برعکس عمران خان نے نہ صرف یہ قیمتی تحائف فروخت کر ڈالے۔ بلکہ اچھی قیمت حاصل کرنے کے لئے کسٹم قوانین کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیرون ملک بھجوائے۔ عمران خان نے نہ صرف تحائف اور ان کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں ذکر نہیں کیا۔ بلکہ یہ ظاہر کرنے کے لئے تحفے پاکستان میں ہی بیچے گئے، ایک جعلی رسید بھی تیار کرائی۔ یوں وہ جعلسازی کے بھی مرتکب ہوئے۔
پی ٹی آئی سے تائب ہونے والے ایک عہدیدار کے بقول پارٹی کے حلقوں میں یہ بات ہوتی رہی ہے کہ توشہ خانہ کیس اس قدر مضبوط ہے کہ اس سے بچنا عمران خان کے لئے نہایت مشکل ہے۔ جبکہ قانونی ماہرین کی اکثریت کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کیس میں ’’چیئرمین پی ٹی آئی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں‘‘۔
چنانچہ ان کے وکلا نے مشورہ دیا ہے کہ جس قدر اس کیس سے وہ بھاگ سکتے ہیں، بھاگیں۔ پچھلے ایک برس سے عمران خان یہی کر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس فوجداری کیس کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں اب تک ہونے والی ستائیس سماعتوں میں سے ایک میں بھی پیش نہیں ہوئے۔ ایسا ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ عمران خان کا سارا زور اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے پر ہے۔ اس کے لئے وہ بار بار ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹارہے ہیں اور سپریم کورٹ بھی جا پہنچے۔
آج بدھ کے روز توشہ خانہ کیس کو لے کر دو عدالتوں میں میدان لگ رہا ہے۔ اس کیس کے قابل سماعت ہونے کے خلاف ایک طرف عمران خان کی اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ سنے گا، تو دوسری جانب ایڈیشنل سیشن کورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوگی۔ پی ٹی آئی کے حلقوں میں آہ و زاری شروع ہوگئی ہے کہ عمران خان کی اپیل کی سماعت ایک بار پھر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کیوں کر رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو ٹھوس وجوہات دے کر ٹرائل کورٹ (ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ) نے دوبارہ توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ، جس نے پہلے بھی اسی نوعیت کی درخواست پر معاملہ ٹرائل کورٹ کو واپس بھیج دیا تھا، عمران خان کو ریلیف دیدے۔ اس صورت میں ٹرائل کورٹ تیزی سے کارروائی آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاکہ رواں ماہ ہی اس کیس کا فیصلہ سنایا جا سکے۔ جو عمران خان کے تاخیری حربوں کے سبب طویل عرصے سے لٹکا ہواہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی سماعت کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ یوں توشہ خانہ کیس کو لے کر آج کا دن خاصہ اہم ہونے جارہا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت میں ایک بار پھر ایڈیشنل سیشن کورٹ نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہونے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ کیس دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا تھا۔ تاہم عمران خان نے اس فیصلے کے خلاف پھر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔ یوں توشہ خانہ کیس عدالتوں کے مابین ’’پنگ پانگ‘‘ بن چکا ہے۔
ویسے تو عمران خان کو اپنے وزارت عظمیٰ کے دور میں مجموعی طور پر اٹھاون تحائف ملے۔ لیکن توشہ خانہ کے جو تحائف عمران خان کے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں آٹھ کروڑ پچاس لاکھ روپے مالیت کی گراف گھڑی، چھپن لاکھ ستر ہزار روپے کے کف لنکس، پندرہ لاکھ روپے مالیت کا ایک قلم اور ستاسی لاکھ پچاس ہزار روپے کی ایک انگوٹھی شامل ہے۔ جنہیں الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ گھڑی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سعودی عرب کے پہلے دورے کے موقع پر ولی عہد محمد بن سلمان نے تحفے کے طور پر دی تھی۔