نمائندہ امت:
عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی میں اختلافات بڑھ گئے۔ دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان لفظی گولہ باری میں تیزی آگئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے ایمل ولی کو غیر سنجیدہ سیاستدان قرار دیتے ہوئے طعنہ دیا ہے کہ اے این پے صرف 2 اضلاع تک محدود ہو گئی ہے۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ باپ بیٹا گورنر ہائوس میں سیاسی وفا داریاں تبدیل کرانے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر دونوں جماعتوں کے کارکنان بھی آمنے سامنے آگئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کے درمیان لفظی گولہ باری تھم نہیں سکی۔ دونوں جماعتوں کے صوبائی ترجمان بھی میدان میں آگئے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ جے یو آئی کے ترجمان عبد الجلیل جان نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد ایمل ولی خان کے سر پر اب آئندہ انتخابات کی شکست کا خوف سوار ہے۔ جے یو آئی قائدین کے خلاف بیانات دے کر ایمل ولی اپنا قد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قائد جمعیت سے متعلق ایمل ولی کے ریمارکس ایک تربیت یافتہ سیاستدان کے نہیں بلکہ غیر سنجیدہ شخص کی بڑھک ہے۔ چارسدہ اور مردان تک محدود جماعت اب ان اضلاع سے بھی فارغ ہو چکی ہے۔ ضلعی انتخابات میں برملا گورنری کے لئے حاجی غلام علی کا نام پیش کرنے والا اب اپنی غلطی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ ہمت ہے تو استعفیٰ دے کر صدارت سنجیدہ شخص کے حوالے کر دیں۔ قوم جانتا چاہتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں خوشگوار سیاسی ماحول کو کس کے اشارے پر گندا کیا جارہا ہے۔
ادھر جواب میں ترجمان عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا ثمر ہارون بلور نے مشورہ دیا کہ مولانا صاحب سمدھی کے علاوہ کوئی رشتہ دار گورنر ہائوس بھیج دیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ گورنر ہائوس میں باپ بیٹا اتحادی جماعتوں کے کونسلرز کو تیس اسٹریٹ لائٹس کی رشوت دے رہے ہیں۔ تیس اسٹریٹ لائٹس تو کیا تیس ارب روپے بھی ہمارا ضمیر نہیں خرید سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑی کرسی پر بیٹھ کر تہذیب سے بات کرنے سے عاری لوگوں کی حمایت نہیں کر سکتے۔ باچا خان اور ولی خان کے سیاسی وارث کا قد پوری دنیا جانتی ہے اور ولی باغ سیاسی مدرسہ ہے۔ جہاں لوگ سیاست سیکھنے آتے ہیں ۔کون کہاں تک محدود ہے سب کچھ چند مہینوں میں واضح ہو جائے گا۔
وزارتوں کے مزے لینے والوں اور پختونخوا میں حکمرانی کے خواب دیکھنے والوں کو عوام پہچان چکے ہیں۔ اے این پی اپنے اصولی موقف اور ماضی کی خدمت کی بنیاد پر عوام میں گھر چکی ہے۔ غیر سنجیدہ رویوں کی وجہ سے صوبے کے پر امن سیاسی ماحول کو خراب کرنے کے پیچھے گورنر ہائوس کی سازش ہے۔ صرف اے این پی نہیں پورا اتحاد کہہ چکا ہے کہ گورنر ہائوس میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ کیا تمام لوگ غلط اور ایک جماعت درست ہے
۔ واضح رہے کہ صوبے کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھل کر سامنے آگئی ہیں اور صوبے کا سیاسی ماحول انتہائی گرم ہو گیا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر اے این پی اور جے یو آئی کے کارکنان جو پہلے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اب ایک دوسرے کے خلاف محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔ اے این پی کے کارکنان جے یو آئی پر الزامات کی بوچھا ڑ کر رہے ہیں۔ جبکہ جے یو آئی کے سوشل میڈیا ورکرز نے عوامی نیشنل پارٹی کی سابقہ اور موجودہ کارکردگی کے بارے میں ماحول بنا رکھا ہے۔
اسی طرح پشاور میں ہوٹلوں، تھڑوں اور گلی محلوں میں بھی دونوں جماعتوں کے کارکنان ایک دوسرے کے خلاف جملے کستے نظر آرہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی پشاور میں بلور خاندان کی وجہ سے کافی مقبول ہے۔ تاہم پشاور میں میئر جمعیت علمائے اسلام سے منتخب ہونے کے بعد جے یو آئی کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ تحریک انصاف کو صوبے میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید ترین اختلافات اور بیان بازی کا بھر پور فائدہ پہنچ رہا ہے۔
تحریک انصاف سے پہلے اے این پی اور جے یو آئی صوبے میں حکومت کر چکے ہیں۔ جبکہ 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کی پورے ملک کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی پوزیشن انتہائی کمزور ہو گئی ہے۔ تاہم اے این پی اور جے یوآئی کے درمیان اختلافات کے بعد پی ٹی آئی کو کچھ حد تک ریلیف ضرور ملا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان جنہوں نے سوشل میڈیا سے دوری اختیار کرلی تھی۔ اب اے این پی اور جے یو آئی کے درمیان لفظی گولہ باری سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ تاہم ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے خود کو معاملے سے فی الحال دور کر رکھا ہے۔