امت رپورٹ :
نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) سمیت حکمراں اتحاد میں شامل تقریباً تمام پارٹیوں کے مابین اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ موجودہ اسمبلیاں مقررہ وقت سے دو تین دن پہلے تحلیل کر دی جائیں۔ تاہم حتمی تاریخ کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ جس پر مشاورت چل رہی ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ تو واضح کر دیا ہے کہ اگست دو ہزار تئیس میں ان کی حکومت سبکدوش ہو جائے گی۔ لیکن تاریخ نہیں بتائی گئی ہے۔
جمعرات کے روز قوم سے خطاب کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپریل دو ہزار بائیس میں انہیں جو ذمے داری سونپی گئی تھی۔ یہ امانت وہ اگست میں نگراں حکومت کے سپرد کر دیں گے۔ اس سے ایک روز پہلے بھی انہوں نے اسی نوعیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت کی مدت اگست میں ختم ہو جائے گی۔
وزیر اعظم کے ان واضح اعلانات کے بعد موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے یا نہ بڑھانے سے متعلق بحث بظاہر ختم ہو گئی ہے اور اس حوالے سے بے یقینی کے بادل چھٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم اس سوال کا اب تک واضح جواب سامنے نہیں آیا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد بننے والی نگراں حکومت کتنے عرصے چلے گی؟
اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ محض ایک ڈیڑھ ہفتے پہلے تک خود حکومت کے اتحادی ارکان بھی موجودہ اسمبلیوں کی مدت کے حوالے سے الجھن کا شکار تھے اور ان کے پاس اس بارے میں واضح جواب نہیں تھا کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھائی جائے گی یا نہیں۔
قومی اسمبلی میں ایک اہم قائمہ کمیٹی کی سربراہی کرنے والے ایک رکن قومی اسمبلی کے قریبی ذرائع نے بتایا تھا کہ اس بارے میں فی الحال مذکورہ رکن پارلیمنٹ بھی کلیئر نہیں ہیں۔ حالانکہ وہ اتحادی حکومت کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن سو فیصد قطعیت سے وہ بھی موجودہ اسمبلیوں کی قسمت کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ ان کے علاوہ ایک سے زائد دیگر حکومتی ارکان پارلیمنٹ بھی رابطہ کرنے پر کنفیوژن کا شکار دکھائی دیئے اور بعض کا خیال تھا کہ شاید موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھا دی جائے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن پاکستان کے ذرائع نے بھی رابطہ کرنے پر اس حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں دیا تھا۔ ان ذرائع کا کہنا تھا ’’الیکشن کمیشن پاکستان بھی چودہ اگست کا انتظار کر رہا ہے۔ تاکہ تب تک اتحادی حکومت کا فیصلہ سامنے آجائے۔ اس کی روشنی میں ہی الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا۔ یوں اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا‘‘۔
تاہم یہ ایک ڈیڑھ ہفتے پہلے کی کہانی ہے۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اگست میں اسمبلیوں کی تحلیل کے واضح اعلان کے بعد بظاہر شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اس معاملے پر پچھلے کچھ عرصے سے پائی جانے والی کنفیوژن کے پس پردہ معاملات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت کو لے کر یہ الجھن بے سبب نہیں تھی۔ موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں اضافے کا آپشن پہلے یقیناً زیر غور تھا۔
دراصل دو آپشنز زیر غور تھے۔ ایک یہ کہ آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے تحت معاشی ایمرجنسی لگا کر موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں چھ، چھ ماہ، یعنی مجموعی طور پر ایک برس کا اضافہ کر دیا جائے اور دوسرا زیر غور آپشن یہ تھا کہ موجودہ اسمبلیاں اگست میں تحلیل کر کے نگراں سیٹ اپ کے دورانیے میں اضافہ کر دیا جائے۔ تاہم پہلے آپشن پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ خاص طور پر آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدے کے بعد یہ آپشن کمزور ہو گیا تھا۔ اس کے بعد معاشی ایمرجنسی لگانے کا جواز باقی نہیں رہا۔
اگر خدانخواستہ آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر معاشی ایمرجنسی خارج از امکان نہیں تھی۔ ذرائع کے مطابق اسمبلیوں کی مدت سے متعلق بے یقینی کی صورتحال کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہو رہا تھا کہ بیرونی سرمایہ کار ان حالات میں اپنا پیسہ لگانے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ چنانچہ مشاورت کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق ہوا کہ جب اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ طے ہو چکا ہے تو پھر اس کا دو ٹوک اعلان کر کے بے یقینی کا خاتمہ کیا جائے۔
یوں قوم سے خطاب کا آغاز وزیر اعظم نے اسی بریکنگ نیوز سے کیا۔ تاہم فوری طور پر یہ نہیں بتایا کہ اسمبلیاں اگست کی کس تاریخ کو تحلیل کی جائیں گی۔ اس سے پہلے یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام مقررہ مدت سے دو تین روز پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حق میں ہیں۔ تاکہ آئندہ انتخابات کی بھرپور تیاری کے لئے نوے روز مل جائیں۔ جبکہ نون لیگ اسمبلیوں کی مدت پوری کرانے کی خواہش مند ہے۔ جس کے نتیجے میں ساٹھ روز بعد انتخابات کرانا ہوں گے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اطلاعات درست نہیں تھیں۔ ان تینوں بڑی پارٹیوں سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے مابین بھی یہ اتفاق ہو چکا ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت سے دو تین روز پہلے تحلیل کی جائیں۔ جس کے بعد آئینی طور پر نوے روز میں انتخابات کرانے ہوں گے۔ لیکن ابھی تک دوسرے زیر غور آپشن کے حوالے سے اتفاق رائے ہونا باقی ہے کہ نگراں حکومت کا دورانیہ کتنا ہونا چاہئے۔
نئی قانون سازی کے بعد اس کا فیصلہ اب الیکشن کمیشن پاکستان نے کرنا ہے۔ تاہم ظاہر ہے کہ اس فیصلے کے لئے الیکشن کمیشن اہم اسٹیک ہولڈرز کا ان پٹ بھی لے گا۔ اگرچہ وہ اس کا پابند نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بھی جلد واضح صورتحال سامنے آجائے گی کہ نگراں سیٹ اپ کب تک برقرار رکھا جائے۔ نگراں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے انتخاب سے کم از کم نگراں حکومت کی مدت کے بارے میں ارادوں کا اندازہ ہوجائے گا۔