امت رپورٹ:
عمران خان کی جانب سے اقتدار میں واپسی اور خود کو بچانے کے لئے جس طرح امریکہ، یورپ اور اسرائیل سے مدد مانگنے کی خبریں عام ہورہی ہیں۔ ان ہی کوششوں کے سلسلے میں ایک ان کہی کہانی اور بھی ہے جو میڈیا اور عوام کی نظروںسے تاحال اوجھل ہے۔ اس کہانی کی پنچ لائن چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے افغان طالبان کا یہ جملہ ہے کہ ’’پہلے اپنے چھ فٹ کے جسم پر دین نافذ کرو‘‘۔ تحریک انصاف کے انتہائی قابل اعتماد ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اپنی سپورٹ کے لئے چیئرمین پی ٹی آئی نے ایک وفد افغانستان بھیجا تھا۔ یہ گزشتہ برس اکتوبر کی بات ہے لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان نے افغان طالبان کو اپنی مدد پر آمادہ کرنے کی خاطر پیغام رسانی کے لئے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا تھا، جو پہلے بھی افغانستان جاچکا تھا اور طالبان کے حلقوں میں کسی حد تک اس کی شناسائی تھی۔ یہ شخص لاہور میں جمعیت کا سابق عہدیدار ہے۔ تاہم تعلیم سے فارغ ہوکر جماعت اسلامی کا مقامی رہنما بن گیا تھا، اور جماعت اسلامی کے سابق رہنما محمد الرشید کے خاصے قریب ہے۔
واضح رہے کہ محمود الرشید کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے تھا۔ انہوں نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے تحریک انصاف جوائن کرلی تھی اور پھر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ آج کل محمود الرشید گرفتار ہیں اور انہیں سانحہ 9 مئی میں ملوث ہونے کے معاملات کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق محمود الرشید کے قریب تصور کئے جانے والے جمعیت کے سابق مقامی عہدیدار کا خاندان اب بھی جماعت اسلامی سے وابستہ ہے۔ لیکن وہ محمود الرشید کے کہنے پر جماعت اسلامی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگیا تھا اور محمود الرشید کی ایما پر عمران خان سے بھی قریب ہوا۔
ذرائع کے بقول اقتدار سے بے دخلی کے بعد مختلف کیسزکا سامنا کرنے اور حکومتی کریک ڈائون سے پریشان چیئرمین پی ٹی آئی جب اپنے بچائو کے لئے ہر طرف ہاتھ پائوں مار رہے تھے تو انہیں خیال آیا کہ اس سلسلے میں افغان طالبان بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں، تو اس پیغام رسانی کے لئے انہوں نے محمود الرشید کے اس قریبی بندے کا انتخاب کیا۔ کیونکہ قابل اعتماد ہونے کے ساتھ وہ مذہبی پس منظر اور دینی وضع قطع بھی رکھتا ہے۔ اور پھر یہ کہ افغانستان کی ڈائنامکس سے واقف تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی کوشش تھی کہ کم از کم افغان طالبان کی جانب سے انہیں اخلاقی سپورٹ ہی مل جائے اور افغان طالبان اس نوعیت کا کوئی بیان جاری کردیں، جس طرح کے بیانات اس وقت امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے عمران خان کی حمایت میں دیئے جارہے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ افغان طالبان کی جانب سے اس نوعیت کا بیان جاری ہونے کی صورت میں کم از کم مذہبی حلقوں میں ان کی سپورٹ بڑھ جائے گی جو ابھی صرف ان کے پیروکاروں یا اندھے عقیدت مندوں میں پائی جاتی ہے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ قابل اعتماد بندے کے ساتھ دو افراد کو اس مقصد کے لئے گزشتہ برس اکتوبر میں افغانستان بھیجا گیا تھا۔ یہ تین رکنی وفد پہلے ہنگو پہنچا۔ وہاں تین دن قیام کے بعد افغانستان کے لئے روانہ ہوا۔ اس وفد میں شامل ایک رکن کے قریبی ذریعے نے بتایا ’’ہم نے افغانستان میں پانچ روز قیام کیا۔ عمران خان کی خواہش تھی کہ ان کا پیغام براہ راست طالبان حکومت کے ایک طاقتور وزیر تک پہنچایا جائے۔ کوشش کے باوجود ہماری ملاقات اس طالبان وزیر سے تو نہیں ہوسکی تاہم اس وزیر کی طرف سے بھیجے گئے چند نمائندوں سے میٹنگ ضرور ہوگئی۔ پانچ روز تک ہم نے افغان طالبان کی بھرپور مہمان نوازی کا لطف اٹھایا۔ دستر خوان پر ہر نعمت موجود ہوتی تھی۔ تاہم جب ہم نے اپنے افغانستان آنے کا مدعا بیان کیا اور بتایا کہ عمران نے کیا پیغام دے کر بھیجا ہے تو ہمیں کورا جواب مل گیا‘‘۔
اس ذریعے کے بقول ’’ہم نے عمران خان کا پیغام طالبان وزیر کے نمائندوں کو دیا تو فوری طور پر ہمیں کوئی واضح جواب نہیں ملا۔ اگلے روز ہماری دوبارہ میٹنگ ہوئی۔ تب ان نمائندوں کا کہنا تھا کہ عمران خان پاکستان میں تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں اور ریاست مدینہ بنانے کے بھی دعویدار ہیں۔ پاکستان تو بہت بڑا ملک ہے۔ عمران خان پہلے اپنے چھ فٹ کے جسم پر دین نافذ کرلیں تو ہم ان کی سپورٹ کے لئے تیار ہیں‘‘۔
ذرائع کے بقول وفد کے ارکان یہ غیر متوقع طنزیہ جواب سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ تاہم انہیں سمجھ آگیا کہ افغان طالبان کسی صورت عمران خان کی خواہش پوری کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس کے باوجود اپنے پانچ روزہ قیام کے دوران وفد نے طالبان کے ان نمائندوں کو قائل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور آخر کار ناکام ہوکر واپسی کی راہ لی۔
افغانستان سے ناکام لوٹنے والے وفد نے عمران خان تک ساری روداد پہنچادی تھی، جس پر وہ خاصے مایوس ہوئے۔ ذرائع کے بقول چیئرمین پی ٹی آئی نے افغان طالبان کی سپورٹ حاصل کرنے کے لئے صرف اس وفد کو ہی افغانستان نہیں بھیجا تھا، وہ اپنے دیگر وسائل اور ذرائع بھی اس مقصد کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ لیکن انہیں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کا خیال تھا کہ جس طرح ان کے دور اقتدار میں پاکستان نے افغان طالبان اور غنی حکومت کے ساتھ بات چیت میں ثالثی کا کردار ادا کیا اور بعد ازاں امریکہ سے افغانستان کے مذاکرات کامیاب کرانے میں مدد کی، اس تناظر میں افغان طالبان کم از کم ان کی اخلاقی حمایت میں ایک بیان ضرور جاری کردیں گے، لیکن ان کی یہ خواہش تاحال پوری نہیں ہوسکی ہے۔