عمران خان :
پاکستان میں غریب و متوسط طبقے کو سود کے جال میں پھنسا کر زندگی سے عاجز کرنے والی 100 سے زائد آن لائن قرض دینے والی فراڈ کمپنیاں سرگرم ہیں۔ بظاہر ان کے مالکان مقامی شہری ہیں۔ لیکن اصل میں ان کی پشت پر غیر ملکی عناصر موجود ہیں۔
ادھر آن لائن مالیاتی لین دین کی کمپنی ’’سرمایہ مائیکرو فنانس‘‘ کی لون ایپ ’’ایزی لون‘‘ سے قرضہ لینے والے راولپنڈی کے شہری کی خودکشی کے بعد قرضہ دینے والی فراڈ ایپس اور کمپنیوں کے خلاف شروع کی جانے والی تحقیقات میں کمپنیوں کے مالکان کے ملک سے فرار کو روکنے کیلئے ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ جبکہ سرمایہ مائیکرو فنانس کمپنی کی ویب سائٹ کو بھی مالکان اور انتظامیہ کی جانب سے غیر فعال کردیا گیا ہے۔ تاکہ ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی ادارے اس کی چھان بین نہ کرسکیں۔
تفتیش سے منسلک ذرائع نے بتایا ہے کہ ملک میں رجسٹرڈ 9 لون ایپس کی جانب سے شہریوں سے دو برسوں میں اربوں روپے کا لین دین کیا گیا ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ پر 100 سے زائد فراڈ کمپنیاں سرگرم ہیں۔ جس سے غیر دستاویزی لین دین کے حجم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں سے میں سے کئی فراڈ کمپنیوں کے پاکستانی مالکان کے پیچھے غیر ملکی عناصر ملوث ہیں، جو انہیں تکنیکی معاونت بھی فراہم کر رہے ہیں اور لاکھوں پاکستانیوں سے اینٹھے جانے والے اربوں روپے کے سود میں سے بھاری کمیشن وصول کر رہے ہیں۔
ان غیر ملکی عناصر میں چین اور یورپی ممالک میں موجود بعض شہری حتیٰ کہ بھارتی شہری بھی شامل ہیں۔ جبکہ درجن بھر سے زائد ایسی مالیاتی کمپنیاں بھی ہیں، جن کے مالکان نے خود کو ایس ای سی پی میں نان بینکنگ فنانس کمپنیز کے تحت رجسٹرد کروا رکھا ہے۔ تاہم وہ آئن لائن قرضہ کی ایپس غیر قانونی طور پر چلا رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں مقامی افراد کو اپنے ساتھ کام پر رکھا ہوا ہے اور انہی کے ذریعے وہ شہریوں سے رقوم کے لین دین کا کام کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کے بقول حکومتی اداروں کی سست وری اور روایتی غفلت کی وجہ سے گوگل پلے اسٹور اور ایپل اسٹور کے ذریعے پاکستان میں آن لائن قرضوں کی آڑ میں مالیاتی فراڈ کرنے والی 100 کے قریب آن لائن ایپس کو اب تک گوگل اور اپیل کمپنیوں سے ڈیلیٹ نہیں کروایا جاسکا ہے۔ اس وقت بھی لاکھوں شہری ان فراڈیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ حالانکہ اس معاملے پر حکومت پاکستان کے اداروں پی ٹی اے، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے کو 2021ء سے واضح پالیسی بنانے اور ان کے خلاف کارروائی کا ٹاسک ملا ہوا ہے۔ تاہم متعلقہ اداروں کے باہمی فقدان اور غیر سنجیدہ پالیسی کے سبب گوگل اور سوشل میڈیا پر کھمبیوں کی طرح اگنے والے آن لائن فراڈئیے، شتر بے مہار بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ 9 رجسٹرڈ اور 100 کے لگ بھگ رجسٹرڈ ایپس، اب تک کروڑوں کی تعداد میں پاکستانی شہری ڈائون لوڈ کرچکے ہیں۔ اس وقت بھی فیس بک، یو ٹیوب اور گوگل پلے اسٹور پر ان اشتہارات چلائے جا رہے ہیں۔
تفتیشی ذرائع کے بقول سب سے خطرناک اور سنگین حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی اداروں کی سستی اور غیر واضح پالیسی سے فائدہ اٹھا کر ان فراڈ اور غیر قانونی ایپس جن کے پیچھے بھارتی، چینی اور یورپی ممالک کے سافٹ ویئر ماہرین ملوث ہیں، کروڑوں پاکستانیوں کے موبائل فونز گیلریز سے ان کا ذاتی نوعیت کا حساس ڈیٹا حاصل کرچکے ہیں۔ جس میں ان کی تصاویر، وڈیوز، رابطہ نمبرز، ذاتی پیغامات، کالز کی ریکارڈنگ اور ان کے بینک کھاتوں کی تفصیلات شامل ہیں۔ جسے یہ عناصر جب دل چاہے بلیک میلنگ کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ تفتیش میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ تر گھروں میں بیٹھی خواتین اور نوجوان لڑکیوں نے ان ایپس سے مجبوری اور غربت کے عالم میں قرضے لئے ہیں، جن کے ساتھ ہونے والی اس بلیک میلنگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جس کی کہیں پر رپورٹنگ نہیں ہورہی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ان غیر قانونی ایپس میں Mahbubur Technology کی 360 Online Qarz ایپ، Chunu Technology کمپنی کی 567 Speed Loan اسپیڈ ایپ، Morsalin Technology کمپنی کی 99 Fast Cash Loan ایپ، Aco Startup کمپنی کی Aasan Lab ایپ، Rabeya Technology کمپنی کی Apple Qist Qarz ایپ، S&P Fintech کمپنی کی Asaan Qarza ایپ، Superthaliyou کمپنی کی Bee Cash ایپ، Shakhawat Technology کمپنی کی BG Loan ایپ، Tom Edler کمپنی کی CashCredit ایپ، Cashpro Technology کمپنی کی CashPro ایپ، MHLD studio کمپنی کی CreditLoan ایپ، Jinglecred کمپنی کی CredStar ایپ، Iqtidar Hussain کی Debit Campsite ایپ، DidiLoans کمپنی کی DiDi Loans ایپ، CapitalPoint Limited کمپنی کی Easy Cash Loans ایپ، Boj Inc کمپنی کی Easy Loans Credit Fast Pay ایپ، Rapidpay Apps کمپنی کی Easy Mobile Loans ایپ، Cemens Ltd کمپنی کی Fair Loans ایپ، Gibraltar Lea کمپنی کی Fast Loan ایپ، Quicksoft Technology کمپنی کی Fast Manne Loan Guide ایپ، Easy Digital Technology کمپنی کی FinMore ایپ، BorrowN کمپنی کی Fori Instant Loans ایپ، Fori Qarz Ltd کمپنی کی Fori Qarz ایپ، Amrit Malwa کی Galaxy Loan ایپ، Get It Now کمپنی کی Get It Now ایپ، Naseem Technologies Ltd کمپنی کی Get Welfare ایپ، Hamdard Team کمپنی کی HamdardLoan ایپ، Harsha Credit Office کمپنی کی Harsha Tube ایپ، Hayar private company کمپنی کیHayar Pocket ایپ، Adnan Rahim کی JaidiCredit ایپ، Susan R Tabor کمپنی کی LendHome ایپ، Optipay Limited کمپنی کی Little Cash ایپ، Quick Mob Pay Pvt. Ltd کمپنی کی LoanClub ایپ ، Credito.pk کمپنی کی MiniLoan ایپ، Mr. Arming Saelee کی Money bee ایپ، Ejaz Hasan Mujawar (QistBazaar) کمپنی کی MoneyBox ایپ، LE THUY DUNGکمپنی کی MrLoan ایپ، Arham Sarwar کی MY Cash ایپ، Muka کمپنی کی MyCash ایپ، Khudeza Technology کمپنی کی Naqad Qarza ایپ، Muhammad Noman Shaikh (Tech Productions) کمپنی کی Plati Loans ایپ، Fahad Nabeel کی Private Credit ایپ، Pyoor Loan Office کمپنی کی Pyoor Pack ایپ، Qarza Rupee کمپنی کی Qarza Pocket ایپ، StarLink-Tech کمپنی کی QuickCash ایپ، RT first startup کمپنی کی Rico Box ایپ، Khalid475 کی Rose Cash ایپ، Paput کمپنی کی Sallam Loan ایپ، Superb Loans Teamکمپنی کی Superb Loans ایپ، Platinum Developer کمپنی کی Swift Loans ایپ، Ali Asad Tanveer کی Tazza Center ایپ، Tcashwin کمپنی کی TiCash ایپ، Muka کمپنی کی ہی UrCash ایپ، Dev Shubham کی Whale ایپ، Ambrose770250 کی YoCash ایپ، Zen Credit Office کمپنی کی Zenn Park ایپ، ZetaLoan Team کمپنی کی ZetaLoan ایپ، QPAY MBP PVT LTD کمپنی کی Money Club ایپ، Ganhewalage Anil Desapriya کمپنی کی Super Magic ایپ، Dev Raja Kumar کی Easy Pocket ایپ، Monii Loan Studio کمپنی کی Monii Proایپ، Rtyfgyau787 کی Holiday Loan ایپ، CreditNowکمپنی کی Credit Now ایپ ، Aleaty Microfinance (Pvt) Ltdکمپنی کی EasyLoan Lite ایپ، Qarza Rupee کمپنی کی Haath Pocket ایپ، OK walletکمپنی کی OK walletایپ، Sickleking کمپنی کی ColeCash ایپ، ReadymoneyCSکمپنی کی Focus loan ایپ، 2DArm کمپنی کی Loan app pakistan ایپ، Geek Lab کمپنی کی Wcash Loan ایپ، ThankDeveloper کمپنی کی Pakkicash ایپ، LuckMoney کمپنی کی LuckMoney ایپ، Candycash کمپنی کی Candycash ایپ اور Pakket Pocket Ltd کمپنی کی Pakket Pocket ایپ شامل ہیں۔
اسلام آباد میں موجود تفتیشی ذرائع کے مطابق مئی 2002ء میں وفاقی حکومت کے کیبنٹ ڈویژن سے ایک مراسلہ تمام متعلقہ وزرا، سیکرٹریز، وزیر اعظم اور صدر سیکریٹریٹ کو جاری کیا گیا تھا، جس میں بتایا گیا کہ مذکورہ کمپنیاں شہریوں کے نجی اور حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کر رہی ہیں۔ اس لئے شہریوں کو آگاہی فراہم کی جائے کہ ان کمپنیوں کی ایپ ڈائون لوڈ نہ کریں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر عملی طور پر ان کمپنیوں کے خلاف ایس ای سی پی، پی ٹی اے ، اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے نے عملی اقدام نہیں اٹھایا۔
ذرائع کے بقول اس وقت جو 9 آن لائن قرضہ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں، ان میں گولڈ لیون فنانشل سروسز پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی کی (اسمارٹ قرضہ) ایپ، جینگل کریڈ ڈیجیٹل فنانس پرائیویٹ لمیٹڈ کی (پیسہ یار) ایپ، مائیکو کریڈ فنانشل سروس پرائیویٹ لمیٹڈ کی (ادھار پیسہ) ایپ، ہمراہ فنانشل سرو س لمیٹیڈ کی (ضرورت کیش) ایپ، سیڈ کریڈ فنانشل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ کی (بروقت ایپ)، ابھی پرائیویٹ لمیٹڈ کی (ابھی) لون ایپ، کیشیو فنانشل سروسز کی (معاون) لون ایپ، سرمایہ مائیکرو فنانس کی ( ایزی لون) ایپ اور تیز فنانشل سروسز کی لون ایپ شامل ہیں۔ وہ بھی کھلے عام ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک اور پی ٹی اے کے قوانین کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔ کیونکہ ان کمپنیوں کی جانب سے بہت سے ضروری معلومات شہریوں سے چھپائی جاتی ہیں، جیسے مثال کے طور پر صرف تین فیصد شرح سود پر قرضہ دینے کی بات کی جاتی ہے۔ تاہم 60 ہزار روپے کا قرضہ لینے والے شخص کو 180 دن کے بعد 92 ہزار روپے یعنی اصل رقم سے 32 ہزار اوپر دینے پڑتے ہیں۔
اگر معاملہ یہاں تک رہے تو یہ ایک سادہ سی بات رہتی ہے۔ صورتحال شہریوں کے لئے اس وقت اذیت کا باعث بنتی ہے جبکہ ہر ہفتے کی بنیاد پر ان کے قرض میں سود کی رقم جمع کردی جاتی ہے اور قرضہ کی اصل رقم کے حجم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جبکہ اسی حساب سے ہر ہفتے اس رقم پر لگنے والے سود کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یوں ہزاروں روپے قرض کی رقم دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ روالپنڈی کے 2 بچوں کے باپ شہری محمد مسعود نے بھی ایک رجسٹرڈ کمپنی سرمایہ مائیکرو فنانس کی رجسٹرڈ لون ایپ ’’ایزی لون ‘‘ سے ہی قرضہ لینے کے بعد سود تلے دب کر خودکشی کی تھی ۔
اسی لئے ان آن لائن قرضہ ایپ کے لئے ’’شارک لون ‘‘ اور ’’وشیئس انٹرسٹ سرکل ‘‘ کی اصطلاحیں عالمی سطح پر استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کمپنیاں قرضہ دینے سے پہلے ہی ڈائون لوڈنگ کے وقت شہریوں کے موبائل فون ڈیٹا بشمول فوٹو گیلری، ذاتی تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ رابطہ لسٹ تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں اور یوں شہریوں کا تمام نجی اور حساس ڈیٹا ان کے تصرف میں آجاتا ہے جو سائبر کرائمز ایکٹ 2016 کی رو سے سنگین جرم ہے اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اس پر کارروائی کا مجاز ہے۔ اسی مواد کو بعد ازاں شہریوں کو رقوم اور سود کے حصول کے لئے بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس وقت یہ کمپنیاں قرضہ دے رہی ہوتی ہیں اس وقت شہری کی ان پیچیدہ معلومات تک رسائی نہیں ہوتی۔