غمزدہ والدین نے نفسیاتی مریض بیٹے کو جیل جانے سے بچانا چاہا تھا، فائل فوٹو
 غمزدہ والدین نے نفسیاتی مریض بیٹے کو جیل جانے سے بچانا چاہا تھا، فائل فوٹو

بھائی نے بہنوں کو ذبح کرنے کیلیے بھی کھیل کھیلا

نمائندہ امت :
’’آئیں مرغی پکڑتے ہیں۔ پکائیں گے۔ کھائیں گے اور لطف اٹھائیں گے‘‘۔ یہ جھانسہ دے کر باری باری تین بہنوں کو ذبح کرنے والے ملزم باسط کو مقامی عدالت نے مزید تفتیش کیلیے پانچ روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ۔ جبکہ آلہ قتل پہلے ہی برآمد ہو چکا ہے۔

ایک ذمہ دار شہری، سرکاری ملازم اور پیار کرنے والے بھائی نے نفسیاتی اثرات کے دبائو میں حقیقی بہنوں کو باری باری ذبح کیا اور ملحقہ کوارٹر کا دروازہ بند کر دیا۔ ابتدائی تفتیش اور سامنے آنے والی تفصیل کے مطابق ملزم اس سفاکانہ فعل کا مرتکب ’’پب جی‘‘ گیم کے اثر کی وجہ سے ہوا۔ پب جی گیم اب تک کئی معصوم افراد کے قتل کا موجب بن چکا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کے تدارک اور سد باب کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔

ماہرین نفسیات اس رحجان کو نئی نسل کیلئے انتہائی خوفناک قرار دیتے ہیں۔ لیکن پب جی کے علاوہ بھی ان تین جانوں کے قتل میں کوئی اور محرکات ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی معمہ بنا ہوا ہے کہ واردات کے حوالے سے قاتل کے والدین معاملہ دبانے کی کوشش کیوں کرتے رہے؟

یاد رہے کہ چار روز قبل پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں واقع سرکاری کالونی تھرمل ٹائون میں ایک سیکورٹی سارجنٹ کے سرکاری ملازم بیٹے باسط نے تین چھوٹی بہنوں زہرا، ابیا فاطمہ اور عریشہ کو قتل کر دیا تھا۔ لاشوں کی برآمدگی کے ساتھ ہی ملزم کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی طرف سے اس واقعے کا نوٹس لیے جانے پر تینوں بچیوں کے قتل کا مقدمہ مقامی ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا اور وزیر اعلیٰ سمیت اعلیٰ حکام کو رپورٹ بھی بھجوا دی گئی تھی۔ پولیس نے اس کیس کے حوالے سے میڈیا کو جو تفصیل فراہم کی۔ اس کے مطابق ملزم باسط کو شک گزرنے کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا اور پھر اس نے اعترافِ جرم بھی کرلیا۔

میڈیا کو فراہم کی جانے والی اطلاعات کے مطابق قتل کی واردات کے کچھ گھنٹوں بعد ملزم باسط نے خود ہی پولیس کی ایمرجنسی سروس ون فائیو پر کال کی اور بچیوں کی گمشدگی کی اطلاع دی۔ جبکہ مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ واردات کے کچھ ہی دیر بعد قاتل کا معلوم ہوگیا تھا۔ لیکن تین اولادیں گنوانے کے بعد غمزدہ والدین نفسیاتی مریض بیٹے کو بھی جیل جانے سے بچانے کیلیے کوشاں تھے۔ چنانچہ بچیوں کی گمشدگی کی کہانی گھڑی گئی۔

مقامی ذرائع کے مطابق تھرمل کالونی کے جس دو کمروں کے سرکاری کوارٹر میں تین معصوم بچیاں ذبح کی گئیں۔ ان کی کسی کے کانوں تک چیخیں کیوں نہ پہنچ سکیں؟ جبکہ انہیں باری باری چھری سے ذبح کیا گیا۔ جس کوراٹر سے بچیوں کی لاشیں برآمد کی گئیں۔ اس کا دروازہ بھی اسی سوگوار خاندان ہی کے گھر میں کھلتا ہے۔

مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بچیوں کی تلاش کیلئے کوئی تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ بلکہ مقامی سیکورٹی سارجنٹ نے ہی لاشوں کی نشاندہی کی اور شکوک کا اظہار بھی کیا۔ چنانچہ ملزم باسط کو موقع پر ہی حراست میں لے لیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی مبینہ طور پر پولیس حکام کی طرف سے مقامی صحافیوں کو اس معاملے کو ایک خاندان کا ذاتی معاملہ ہونے کے نام پر نظرانداز کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔ مظفر گڑھ کے تھانے کے تفتیشی افسر سجاد اور مقامی ڈی ایس پی ریحان رسول بھی اس معاملے پر کھل کر گفتگو سے گریز کر رہے ہیں۔

تفتیشی افسر انسپکٹر سجاد کے مطابق ملزم ذہنی طور پر اچھی صحت نہیں رکھتا۔ اگر بیان کی جانے والی کہانی پر انحصار کیا جائے تو ملزم کے پب جی گیم کے زیر اثر ہونے کی بنیاد پر تین بہنوں کے قتل کا جو جواز سامنے لایا گیا ہے۔ اس کی تصدیق مشکوک ہو جاتی ہے۔ ملزم کے بیان کے مطابق اسے والدین کی طرف سے بہنوں کو زیادہ توجہ دیئے جانے کا رنج تھا۔

دوسری جانب نفسیاتی ماہرین اور ایسے مقدمات کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر پب جی جیسے گیم کے عادی افراد کی جو کیفیت بیان کرتے ہیں۔ اس کے مطابق یہ گیم کھیلنے والے جب متشدد رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کے اعصاب ایک مخصوص سمت میں تیزی سے متحرک ہوتے ہیں اور وہ سنگین ترین جرم کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ جو مسلسل اس خطرے کا الارم بجاتی رہتی ہیں کہ پب جی گیم نئی نسل اور اس کے عادی افراد کو حیوان بنا رہا ہے۔ جس کا تدارک ضروی ہے۔

پب جی گیم کے عادی ہونے کے نتیجے میں سنگین جرائم کے مرتکب ایک سے زائد افراد کی تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی بابر بن دلاور نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’جب ایسے ملزموں کی تفتیش کی جاتی ہے تو اس کی وجہ ان کے اعصاب پر یکطرفہ ہونے اور خود کو سپر ہیومن ثابت کرنے کا جنون ہی سامنے آتا ہے۔ درحقیقت ایسے جرائم کی بنیادی وجہ خاندان کے افراد کا بروقت ایسے گیم کھیلنے والوں کو عادی و نشئی ہونے سے نہ بچانا ہے‘‘۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اپنے ڈپارٹمنٹ یا حکومت کو کوئی پب جی کیخلاف سفارشات بھی ارسال کی ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا ’’جرم کے بعد بنیادی کام تفتیش کا ہوتا ہے۔ جب تفتیش ہوجاتی ہے تو دیگر اداروں اور ذمہ داروں کے سامنے بھی ہر چیز کے تمام پرت کھل جاتے ہیں۔

ایسے ملزموں کو معمول کے بجائے الگ مقام پر رکھ کر تفتیش کی جانی چاہئے اور اس پر ماہرینِ نفسیات اور سائنسدانوں کو تحقیق کرنا چاہئے کہ یہ گیم دماغ کے کن خلیوں کو کیسے اور کتنے عرصے میں غیر معمولی توجہ کا طالب بنا دیتا ہے‘‘۔ اس ضمن میں ماہر نفسیات ڈاکٹر عثمان نور کا کہنا تھا ’’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پب جی گیم انتہائی خطرناک ہو چکا ہے اور نئی نسل نہیں، بلکہ ہر طبقہ اس کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ کینسر سے بھی کہیں زیادہ خطرناک مگر قابلِ علاج ہے۔ اور ہم نے کئی لوگوں کو اس سے نجات دلائی ہے۔ یہ گیم کھیلنے والا خود کو سپر سانک ڈکلیئر کرکے تخیلاتی عمل کو عملی جامہ پہناتا ہے تو شدید ترین جرم کا ارتکاب سامنے آتا ہے۔

اس کا نشہ بھی ایسے ہی شروع ہوتا ہے جیسے ابتدا میں کوئی سگریٹ کا ایک کش لے اور پھر عادی ہونے کے بعد اس سے چھٹکارا نہ پا سکے۔ ابتدا میں یہ گیم تفریح کا باعث ہوتا ہے اور پھر بتدریج نشے کی حالت اختیار کرلیتا ہے۔ سب سے زیادہ وہ افراد اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ جو خاندان اور معاشرے میں نظراندز کیے جاتے ہیں‘‘۔