حاشر عظیم:
گیارہ برس پہلے افغانستان میں امریکی فوجیوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی۔ یہ سلسلہ سوئیڈن اور ڈنمارک تک جا پہنچا ہے۔ دل آزاری کے یہ واقعات اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک پونے دو ارب مسلمانوں کے حکمراں، کتاب الٰہی کو اپنی ’’ڈیڈ لائن‘‘ قرار نہیں دے دیتے۔ یعنی مذمتی بیان سے بڑھ کر عملی اقدامات نہیں اٹھاتے۔ اس کی ابتدا سوئیڈن کے واقعہ سے کرنی چاہئے۔ جب تک اس معاملے پر مسلمان حکمراں بھی اپنے دل میں سوز اور روح میں احساس پیدا نہیں کرتے۔ مغرب کی ناپاک جسارتیں بڑھتی رہیں گی۔
حالیہ واقعہ کو ’’ریڈ لائن‘‘ قرار دیتے ہوئے ابتدا میں اگر ستاون میں سے محض دس طاقتور مسلم ممالک ہی سوئیڈن سے اس وقت تک اپنے تجارتی تعلقات منقطع کرلینے کا اعلان کردیتے ہیں، جب تک کہ قرآن پاک کی شہادت کے مرتکب بدبخت کو سزا نہیں دی جاتی تو یقینا خودسر سوئیڈش حکومت گھٹنے ٹیک دے گی کہ اس کے نتیجے میں اسے اربوں ڈالر سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ بلاشبہ اس کے لئے متعلقہ مسلم ممالک کو بھی مالی قربانی دینی پڑے گی۔ لیکن قرآن پاک کے دفاع میں یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ ساتھ ہی سوئیڈش حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے جائیں تو احتجاج زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ یہ ان دیگر ممالک کے لئے بھی ایک واضح پیغام ہوگا۔ جہاں توہین قرآن اور توہین رسالت کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
لیکن صد افسوس۔ دنیاوی خواہشات کی اسیری، غلامی کے بوجھ تلے دبی گردنوں، کلائیوں میں پڑی مجبوری کی ہتھکڑیوں اور مغرب کے حضور خمیدہ گھٹنوں نے ہمیں ایسی زندہ لاش بنا دیا ہے جو ذلت و پستی کے کفن میں لپٹی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج قرآن ان اطاعت پیشہ حکمرانوں سے پوچھ رہا ہے کہ ’’میں تمہاری ریڈ لائن کب بنوں گا؟‘‘۔ عملی اقدامات کے بجائے صرف مذمتی بیانات داغنے سے یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ مسلمان حکمراں ایک ایسے کپڑے کی مثال بن چکے ہیں۔ جسے بے چارگی کے ہاتھ تہ کرتے اور پھیلاتے ہیں۔
سوئیڈن کے ساتھ اگر دس طاقتور مسلم ممالک کے تجارتی تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا تو اس کا حجم اربوں ڈالر بنتا ہے۔ ان میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔
یوروگلف انفارمیشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، مشرق وسطیٰ میں سوئیڈن کے لئے اب تک سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ پچھلے پانچ برس میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تجارت کا مجموعی حجم چھ ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ مسلم ممالک میں ترکی بھی سوئیڈن کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ گزشتہ چھبیس برس کے دوران سوئیڈن کو ترکی کی برآمدات میں ساڑھے گیارہ فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ جو انیس سو پچانوے میں ایک سو سولہ ملین ڈالر تھیں اور دو ہزار بائیس میں بڑھ کر تقریباً پونے دو ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ سوئیڈن سے ترکی کو برآمد کی جانے والی اہم مصنوعات میں لوہا، کاریں اور اسکریپ سرفہرست ہے۔
اسی طرح دو ہزار اکیس میں ترکی نے سوئیڈن سے ایک ارب تراسی کروڑ ڈالر اور دو ہزار بائیس میں ایک ارب ستانوے کروڑ ڈالر کی امپورٹ کی۔ جبکہ سوئیڈن کو نیٹو کا رکن بننے کے لئے ترکی کی حمایت کی ضرورت ہے، اور ترکی اسے سپورٹ کر بھی رہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اہانت قرآن کے مجرم کو سزا دلائے بغیر ترکی اپنی یہ حمایت جاری رکھتا ہے یا نہیں؟
مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا کے خطے میں متحدہ عرب امارات بھی سوئیڈن کے سب سے اہم تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ اس خطے میں سوئیڈن کی تیس فیصد برآمدات متحدہ عرب امارات کو جاتی ہیں۔ سوئیڈن کی ان برآمدات میں پچھلے کچھ عرصے میں ستائیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ تین ارب درہم سے زائد تک پہنچ گئی ہیں۔ اسی طرح اسکنڈے نیوین ممالک میں سوئیڈن وہ ملک ہے، جس کے انڈونیشیا کے ساتھ پائیدار دو طرفہ تجارتی تعلقات ہیں۔ دو ہزار گیارہ میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر تھا، جو اب تین گنا سے زائد ہو چکا ہے۔
ملائیشیا اور سوئیڈن کے مابین بھی سالانہ امپورٹ، ایکسپورٹ میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دو ہزار اکیس میں سوئیڈن نے ملائیشیا سے پانچ سو اکیاون ملین ڈالر اور دو ہزار بائیس میں چھ سو اکیس ملین ڈالر سے زائد کی مصنوعات امپورٹ کیں۔ دو ہزار بائیس میں ملائیشیا نے سوئیڈن سے تین سو پینسٹھ ملین ڈالر کی درآمدات کیں۔ اگر ایک اور امیر ترین مسلم ملک کویت کی بات کی جائے تو پچھلے چھبیس برس کے دوران کویت کو سوئیڈن کی برآمدات میں ایک اعشاریہ اکسٹھ فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ جو انیس سو پچانوے میں باسٹھ ملین ڈالر سے بڑھ کر دو ہزار بائیس میں ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوچکی ہیں۔ جبکہ ہر سال کویت بھی سوئیڈن کو معدنی مصنوعات، دھاتیں، پلاسٹک، ربڑ کی پروڈکٹس سمیت ملینز ڈالرز کی اشیا ایکسپورٹ کرتا ہے۔
پاکستان کے بھی سوئیڈن سے تجارتی تعلقات ہیں۔ پچھلے چھبیس برس کے دوران سوئیڈن کو پاکستان کی برآمدات میں بھی چار اعشاریہ دو فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال سوئیڈن نے پاکستان کو دو سو اٹھارہ ملین ڈالر سے زائد کی برآمدات کیں۔ بین الاقوامی تجارت پر اقوام متحدہ کے ’’کام ٹریڈ ڈیٹا‘‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان نے بھی سوئیڈن سے دو سو اٹھارہ ملین ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں۔ رواں برس جون میں اپنے دورہ سوئیڈن کے موقع پر وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے سوئیڈش وزرا اور کاروباری اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ متذکرہ مسلم ممالک کی جانب سے سوئیڈن سے تجارتی و سفارتی تعلقات منقطع کرلینے کی صورت میں سوئیڈن کو ہر حال میں اہانت قرآن کے مجرم کو سزا دینی پڑے گی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوگا۔ کچھ عرصہ پہلے عیسائی اکثریتی ملک تنزانیہ، قرآن کی توہین کے مرتکب کو دو برس قید کی سزا سناکر مثال قائم کر چکا ہے۔ ہانڈا توما نامی بدبخت پر عدالت نے دو قسم کی فرد جرم عائد کی تھیں۔ ایک یہ کہ اس نے تنزانیہ کے سماج کے جذبات کو مجروح کیا اور دوسرا یہ کہ مقدسات اسلام کی توہین کی۔
اگرواقعی سوئیڈن آزادی اظہار کا اتنا بڑا علمبردار ہے تو ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے خلاف تقریر کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟ دنیا کے ایک سو دو ممالک میں ہولو کاسٹ پر بات کرنا جرم ہے اور اس کے مرتکب کے لئے قید و جرمانہ، دونوں سزائیں ہیں۔
گوکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اور قیامت تک قرآن اور اس کی تعلیمات کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سوئیڈن جیسے واقعات طاقت ور مسلمان حکمرانوں کے لئے محض آزمائش ہیں کہ ان کے دل میں کس قدر ایمان کی حرارت باقی ہے۔ کیا اس آزمائش سے منہ پھیرا جا سکتا ہے؟