منظور قادر کاکا نے نسلہ ٹاور کا غیر قانونی طور پر نقشہ پاس کیا تھا، فائل فوٹو
منظور قادر کاکا نے نسلہ ٹاور کا غیر قانونی طور پر نقشہ پاس کیا تھا، فائل فوٹو

نسلہ ٹاور کے متاثرین 2 برس سے دربدر

نمائندہ امت :
سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے ایک فیصلے کی بدولت نسلہ ٹاور کے 44 خاندان گزشتہ دو برس سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ متاثرین کو تاحال معاوضہ بھی نہیں مل سکا۔ ان کا شکوہ ہے کہ سابق چیف جسٹس کے ایک فیصلے کے سبب انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے زندگی بھر کی جمع پونجی سے بنایا گیا آشیانہ گرتے دیکھا۔ اب دو سال سے کرائے کے گھر میں رہتے ہوئے معاوضہ ملنے کے منتظر ہیں۔ بنی گالہ، بحریہ ٹاؤن اور گرینڈ حیات کو تو ریگولرائزڈ کر دیا گیا۔ مگر ان کا گھر تباہ کردیا گیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے 16 جون 2021ء کو نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسماری کا حکم دیا تھا۔ جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے شہری انتظامیہ نے عمارت مسمار کردی تھی۔ عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے بلڈر اور متاثرین کی جانب سے درخواستیں بھی جمع کرائی گئیں۔ جو مسترد کردی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کو عمارت مسمار کرنے میں مشکلات درپیش تھیں۔ جس پر معاملہ دسمبر 2021ء تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا۔ تاہم بعد میں عمارت مسمار کردی گئی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کا بھی حکم دیا تھا۔ عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا تھا کہ کیس کی پروسیڈنگ کے دوران عدالت کے نوٹس میں آیا کہ نسلہ ٹاور کے الاٹیز بنا کسی کمپنسیٹ کے گھر چھوڑ کر گئے۔ جبکہ بلڈر بھی آگے نہیں آیا۔ نسلہ ٹاور الاٹیز کو کمپنسیٹ کیا جانا لازمی ہے۔ جس کا ایک ذریعہ 780 اسکوائر یارڈ پر مشتمل پلاٹ نمبر 193-A ہے اور اسے محفوظ بنانے کیلئے آفیشل اسائنی کی تعیناتی ضروری ہے۔ عدالت نے نسلہ ٹاور کو کیس پراپرٹی سے منسلک کرتے ہوئے نسلہ ٹاور پلاٹ پر ناظر کو فوری کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد یعنی عمارت مسمار ہوئے دو سال گزر چکے۔ مگر اب تک 44 متاثرہ خاندان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ صوبائی و شہری انتظامیہ سمیت کسی بھی ادارے نے اب تک متاثرین کی داد رسی نہیں کی اور نہ ہی ان کو کوئی معاوضہ ادا کیا گیا۔

متاثرین شکوہ کرتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے ایک فیصلے نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ بنی گالہ، بحریہ ٹاؤن اور گرینڈ حیات کی طرح نسلہ ٹاور بھی ریگولرائزڈ کردیا جاتا تو ان کا آشیانہ تباہ نہ ہوتا۔ نسلہ ٹاور کے ایک متاثر امتیاز احمد نے بتایا کہ ’’ہمارے گھروں کو گرائے ہوئے دو سال گزر چکے ہیں۔ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے نسلہ ٹاور میں فلیٹ لیا تھا۔ پھر اچانک سے کہا جاتا ہے کہ پوری عمارت گرادی جائے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عمارت گرادی گئی۔ مگر سپریم کورٹ نے جو ہمیں معاوضے ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور آج تک ایک روپیہ بھی معاوضے کی مد میں نہیں ملا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ تین ماہ میں عمارت کو گراکر متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔ مگرمتعلقہ اداروں نے عمارت تو مسمار کردی۔ لیکن ہمارا معاوضہ نہیں دیا گیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد سماعت کے دوران کے ایم سی اور دیگر اداروں سے یہ تو پوچھتے تھے کہ عمارت کیوں نہیں گری۔ کب گراؤ گے۔ مگر کبھی ایک سماعت پر بھی یہ نہیں پوچھا کہ متاثرین کو معاوضہ دیا گیا یا نہیں‘‘۔

ایک سوال پر امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ بے شک سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ مگر ہم نے فیصلہ مانا کہ عدالتی فیصلہ تھا۔ مگر ہماری داد رسی کسی نے نہیں کی۔ اب اس جگہ پر 6 کروڑ روپے کا اپارٹمنٹ مل رہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں 6 کروڑ دلوائے جائیں۔ مگر جس وقت ہمارے فلیٹ مسمار کیے گئے۔ اس وقت جو قیمت تھی۔ وہ تو ہمیں دلوائی جائے‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’متاثرین کی جانب سے معاوضے کیلئے بھی سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی۔ مگر اس پٹیشن کو بھی دو سال ہوگئے اور اب تک ہماری درخواست پر شنوائی نہیں ہوئی۔ جب سے عمارت مسمار ہوئی ہے۔ میں کرائے کے گھر میں رہ رہا ہوں‘‘۔

نسلہ ٹاور کے متاثرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ہماری نظر میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے غلط فیصلہ سنایا۔ لیکن ہم نے عدالتی فیصلہ تسلیم کیا اور کوئی مزاحمت نہیں کی۔ ہم نے اپنے فلیٹ بچانے کیلئے سپریم کورٹ میں بھی درخواست جمع کرائی۔ جس میں بتایا کہ 16 جون 2021ء کو جاری حکمنامہ مختیار کار کی رپورٹ میں دی گئی تجاویز کی بنیاد پر سنایا گیا۔ جبکہ پورے علاقے کا ریکارڈ سندھی مسلم کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی اور کے ایم سی دے سکتے ہیں۔ جنہیں نہ تو نوٹس دیا گیا اور نہ ہی ان سے رپورٹ مانگی گئی۔

سپریم کورٹ کا حکم نامہ درخواست گزار کے پراپرٹی حقوق کو متاثر کرتا ہے۔ نسلہ ٹاور کی اضافی تعمیرات 341 اسکوائر یارڈ کی الاٹمنٹ تک نہیں کی گئی۔ اونرز نے سرکاری زمین پر کوئی تجاوزات نہیں کی تھی۔ مگر سندھی مسلم سوسائٹی سے حاصل ضرور کی تھی۔

سندھی مسلم سوسائٹی نے کمشنر کو مارکیٹ ویلیو کے حساب سے اضافی زمین کی ادائیگی کی اور بعد میں الاٹی نے سوسائٹی کو ادائیگی کی۔ مسماری حکم جاری کر دیا گیا۔ تاہم ایکسپرٹ کی تجاویز دینے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ 16 جون 2021ء کا حکم نامہ سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کے اصولوں کے خلاف تھا۔ جو بحریہ ٹاؤن کیس اور گرینڈ حیات کیس میں سنائے گئے تھے۔ دونوں فیصلے تین رکنی بنچ نے سنائے تھے۔ دونوں فیصلوں میں زمین کو ریگولرائزیشن کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ حالانکہ ان کیسز میں زمینیں غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی تھیں۔ ان فیصلوں میں عدالت نے تھرڈ پارٹی انٹرسٹ (الاٹیز) کے مفاد کو مد نظر رکھا اور بلڈر کو ریلیف فراہم کیا تھا۔ جبکہ نسلہ ٹاور کیس میں فلیٹس تھرڈ پارٹی یعنی متاثرین کو الاٹ کیے جا چکے تھے۔ اصولاً دونوں فیصلوں کا اطلاق اس کیس میں بھی ہونا چاہیے تھا‘‘۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ افسوس اس بات پر ہے کہ ہماری داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ عمارت تو گرا دی گئی۔ مگر ہمیں انصاف کون دے گا۔