علی جبران :
سانحہ 9 مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کے بے شمار صف اول کے رہنما پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرکے اپنی کھال بچانے کا اہتمام کرچکے ہیں۔ تاہم ایک درجن سے زائد رہنما اب تک بظاہر عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے لئے ’’ڈٹ جانے‘‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن یہ تاثر غلط ہے۔ اس معاملے سے آگاہ مستند ذرائع کے بقول اصل حقائق یہ ہیں کہ بظاہر ’’ڈٹ جانے‘‘ والوں کو معافی کا آپشن دستیاب ہی نہیں۔ بصورت دیگر ان میں سے کئی، دوسروں کی طرح اب تک پریس کانفرنس کرکے پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کرچکے ہوتے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان رہنمائوں کو معافی کا آپشن اس لئے نہیں دیا گیا ہے کہ حکومت اور اداروں کے پاس ان کے خلاف 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ لہٰذا انہیں ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ ان رہنمائوں میں مراد سعید، شہریار آفریدی، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، جمشید چیمہ، ان کی اہلیہ مسرت چیمہ، حماد اظہر، فرخ حبیب اور ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت بعض دیگر شامل ہیں۔
متذکرہ رہنمائوں میں سے صرف شہریار آفریدی اور یاسمین راشد گرفتار ہیں۔ باقی زیادہ تر روپوش ہیں۔ ان کی گرفتاری کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد چھاپے مارے جاچکے ہیں۔ یاد رہے کہ سانحہ 9 مئی کے ایک روز بعد پی ٹی آئی رہنما اعجاز چوہدری اور ان کے بیٹے علی چوہدری کے مابین گفتگو پر مشتمل ایک آڈیو لیک ہوئی تھی۔ جس میں کہا جارہا ہے کہ ’’ہم نے پورا کور کمانڈر ہائوس تباہ کر دیا ہے۔ گملے سے لے کر کوئی چیز سلامت نہیں بچی ہے‘‘۔ اسی طرح کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ پر جانے والے جتھے کی سربراہی ڈاکٹر یاسمین راشد کر رہی تھیں۔
اس حوالے سے ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔ شہریار آفریدی بھی ایک ویڈیو کلپ میں یہ کہتے دکھائی دیئے کہ ’’سب جی ایچ کیو پہنچیں‘‘۔ جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری ’’غیر قانونی‘‘ قرار دینے کے فوری بعد ایک وائرل آڈیو لیک میں مسرت جمشید چیمہ کو عمران خان ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ ان کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ اور اعظم سواتی سے رابطہ کریں۔
کہا جاتا ہے کہ ’’اعظم سواتی‘‘ کا کوڈ کسی اور شخصیت کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس آڈیو لیک کے بعد نہ صرف ’’بنچ فکسنگ‘‘ کے الزامات لگے تھے۔ بلکہ یہ بھی ثابت ہوا تھا کہ نیب کی حراست کے دوران بھی عمران خان اپنے پارٹی رہنمائوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ حالانکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوتا رہا۔ اس کا انہیں علم نہیں تھا۔ جمشید چیمہ اور ان کی اہلیہ مسرت چیمہ نے اگرچہ پریس کانفرنس کرکے پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم ذرائع کے بقول دونوں میاں بیوی کے خلاف چونکہ سانحہ 9 مئی میں ملوث ہونے کے شواہد حکومت کے پاس موجود ہیں۔ لہٰذا انہیں دیگر کی طرح معافی کا موقع نہیں دیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سانحہ 9 مئی کو لے کر بیان کردہ تمام پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ تاہم خواتین ہونے کے ناطے ڈاکٹر یاسمین راشد اور مسرت چیمہ کے خلاف امکان ہے کہ سول کورٹس میں کیس چلایا جائے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے مذکورہ جن رہنمائوں کے لئے معافی کا آپشن نہیں رکھا گیا ہے۔ ان کے خلاف حکومت اور اداروں کے پاس ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ انہیں طویل سزائیں ہو سکتی ہیں۔ جبکہ عمران خان کے خلاف خود وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے منصوبہ ساز کے طور پر چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف بھی مقدمات ملٹری کورٹس میں چلائے جائیں گے۔
سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلائے جانے کے خلاف اگرچہ سپریم کورٹ میں دائر مختلف پٹیشنز کی سماعت جاری ہے، اور ابتدائی سماعتوں میں سپریم کورٹ ملٹری کورٹس کے خلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد کر چکی ہے۔ تاہم ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ بیشتر قانونی ماہرین اور سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے صحافتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کوئی ’’درمیان کا راستہ‘‘ نکال لیا جائے گا۔ یعنی سپریم کورٹ سویلینز کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کی مشروط اجازت دے سکتا ہے۔ جس کے تحت ملٹری کورٹس سے سزا پانے والوں کو نہ صرف مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہوگی۔ بلکہ سزا کو سول کورٹس میں چیلنج بھی کیا جاسکے گا۔ اس اہم کیس کی سماعت جاری ہے ۔
اگلی سماعت میں سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے کیس پر فل کورٹ بنانے کی درخواست پر فیصلہ سناسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اٹارنی جنرل پاکستان اور سول سوسائٹی کے ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے سپریم کورٹ سے یہ استدعا کر رکھی ہے کہ ملٹری کورٹس میں سویلینز کے مقدمات کے خلاف کیس سننے کے لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
اس حوالے سے جسٹس یحییٰ آفریدی بھی اپنے اضافی نوٹ میں فل کورٹ بنانے کا کہہ چکے ہیں۔ اس وقت یہ کیس چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ سن رہا ہے۔ بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔ دیکھنا ہے کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے کیا فیصلہ آتا ہے۔