علی جبران
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی سزا کے بعد شاہ محمود قریشی کا دیرینہ خواب ان معنوں میں پورا ہوگیا کہ بطور وائس چیئرمین اب پارٹی امور وہ چلائیں گے۔ اس سلسلے میں ان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کور کمیٹی کا پہلا اجلاس ہفتے کے روز ہوا۔ ادھر ایک بار پھر کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش ناکام ہوگئی، احتجاج کی قیادت کا بھاری پتھر چومنے پر کوئی پارٹی رہنما تیار نہیں۔ جبکہ یوم آزادی پر جلسہ کرنے سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی حسرت بھی دل میں رہ گئی۔
پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ حاصل کرنے کے لئے مختلف رہنمائوں کے مابین کشمکش کی خبریں پچھلے چند برسوں سے میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ابتدا سے ہی اس خواب کو پورا کرنے کی خاطر شاہ محمود اور جہانگیر ترین کے مابین پارٹی کے اندر سرد جنگ چلتی رہی۔ حتیٰ کہ ایک وقت میں پی ٹی آئی کے اندر باقاعدہ قریشی گروپ اور ترین گروپ بن گئے تھے۔ شروع میں اگرچہ ترین گروپ کا پلڑا بھاری تھا، لیکن پھر قسمت کی دیوی شاہ محمود قریشی پر مہربان ہوگئی۔ جہانگیر ترین نااہل ہوئے اور اسی بنیاد پر ان کے پارٹی چیئرمین عمران خان سے تنازعہ کا آغاز ہوا، جو آخر کار جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی سے بے دخلی پرمنتج ہوا۔ یوں شاہ محمود قریشی کے لئے راستہ ہموار ہوگیا اور انہیں اپنے خواب کی تعبیر نزدیک آتی دکھائی دینے لگی۔ خاص طور پر جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سینگ پھنسائے تو قریشی کو اپنی منزل مزید قریب نظر آئی۔ لیکن ان کے خواب کی تعبیر میں ابھی ایک اور رکاوٹ اسد عمر کی صورت میں باقی تھی۔ تاہم پی ٹی آئی ذرائع بتاتے ہیں کہ جب سانحہ 9 مئی کے بعد اسد عمر نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا تو وہ عمران خان کی گڈ بک سے نکل گئے تھے۔ یوں شاہ محمود قریشی کے لئے میدان مکمل طور پر صاف ہوگیا۔ ان ذرائع کے بقول اگرچہ عمران خان، شاہ محمود قریشی سے بھی زیادہ خوش نہیں تھے اور انہیں شک تھا کہ وہ وکٹ کی دونوں طرف کھیل رہے ہیں، لیکن 9 مئی کے بعد سارے قریبی ساتھیوں کے ساتھ چھوڑ جانے پر چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ چنانچہ انہیں شاہ محمود قریشی کو مجبوری میں گلے سے لگائے رکھنا پڑا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت پارٹی کی باگ ڈور خود عمران خان نے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے حوالے کی ہے۔ اپنی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر انہوں نے پارٹی امور چلانے کے لئے پہلے ہی ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی، جس کی سربراہی شاہ محمود قریشی کو سونپی گئی۔
اب جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے تین برس قید کی سزا سنادی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ پانچ برس کے لئے نااہل بھی ہوگئے ہیں، تو پارٹی کی سربراہی عملی اور ٹیکنیکلی طور پروائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے پاس آچکی ہے۔ عمران خان کی سزا کے خلاف پی ٹی آئی کو اپیل کا حق حاصل ہے اور اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر بھی کردی گئی ہے، جس میں سزا کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ عمران خان کے وکلا کو امید ہے کہ وہ آئندہ چند روز میں کم از کم چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن سزا کالعدم ہونے تک نااہلی برقرار رہے گی۔ لہٰذا اس وقت تک شاہ محمود قریشی بلاشرکت غیرے تحریک انصاف کے سربراہ رہیں گے۔ تاہم ایک تبصرہ نگار کے مطابق گھاگ سیاستداں کے طور پر شاہ محمود قریشی سمجھتے ہیں کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا فی الحال ان کے مصائب کا آغاز ہے۔ آنے والے دنوں میں دیگر کیسوں سے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کا بچنا بظاہر مشکل ہے۔ اس صورت میں طویل عرصے تک پارٹی کی سربراہی شاہ محمود قریشی کو ملنا خارج از امکان نہیں۔
پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ ہر پیشی پر عمران خان کو اپنی گرفتاری کا خدشہ ہوتا تھا، اسی لئے وہ عدالت جانے سے پہلے یو ٹیوب پر وِلاگ میں اپنی ممکنہ گرفتاری کا خدشہ ظاہر کرتے تھے۔ تاہم توشہ خانہ کیس میں اس بار خود چیئرمین پی ٹی آئی اور پارٹی کی دیگر قیادت کو سزا اور گرفتاری کا پورا یقین ہوچکا تھا۔ چنانچہ عدالتی فیصلے سے ایک، دو دن پہلے ہی اس سلسلے میں آئندہ کا ہنگامی لائحہ عمل طے کیا گیا تھا۔ عمران خان کی خواہش تھی کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں روپوش رہنما بھی منظر عام پر آجائیں اور احتجاج کے لئے کارکنوں کو گھروں سے باہر نکالیں۔ واضح رہے کہ اس وقت حماد اظہر، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، میاں اسلم اقبال، اعظم سواتی، فرخ حبیب، قاسم سوری ، فیصل جاوید خان، علی نواز اعوان ، عثمان ڈار اور صداقت علی عباسی سمیت متعدد پی ٹی آئی رہنما گرفتاری کے خوف سے روپوش ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ روپوشی ختم کرنے سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی تجویز سے خوفزدہ رہنمائوں نے اتفاق نہیں کیا۔ اپنی بزدلی کو کور کرنے کے لئے انہوں نے یہ جواز گھڑا کہ اگر وہ بھی گرفتار ہوگئے تو پیچھے پارٹی چلانے والا کون بچے گا؟ اور یہ کہ وہ روپوشی میں بھی کم از کم بذریعہ سوشل میڈیا کارکنوں سے رابطے میں ہیں۔ گرفتاری کی صورت میں یہ رابطہ بھی منقطع ہوجائے گا۔ قصہ مختصر، روپوش رہنمائوں نے عمران خان کی ممکنہ گرفتاری پر خود باہر نکلنے کے بجائے کارکنوں کو اپنے طور پر سڑکوں پر لانے کی تجویزدی۔ جس پر بحالت مجبوری چیئرمین پی ٹی آئی کو اتفاق کرنا پڑا اور فیصلہ کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں یونین کونسل اور ضلعی سطح کے عہدیداران کی قیادت میں کارکنوں کو سڑکوں پر نکالا جائے گا۔ بعد ازاں اس سلسلے میں بذریعہ سوشل میڈیا کارکنوں سے اپیلیں کی گئیں، یعنی روپوش رہنمائوں نے احتجاج کے لئے منظر عام پر آنے کے بجائے عمران کے سادہ لوح پیروکاروں کو ایک بار پھر قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کے بقول جب روپوش رہنمائوں کی جانب سے منظر عام پر آنے سے انکار ہوگیا تو پھر ان رہنمائوںکو یہ بھاری پتھر چومنے کا کہا گیا، جو روپوش نہیں اور ضمانتوں پر آزاد ہیں۔ یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اسد قیصر سمیت بعض پارٹی رہنما اس وقت منظر عام پر ہیں۔ تاہم ان رہنمائوں نے بھی احتجاج کی قیادت کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان کے ویڈیو پیغام اور پارٹی کے روپوش اور منظر عام پر موجود رہنمائوں کی سوشل میڈیا پر تمام تر اپیلوں کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر مٹھی بھر لوگوں کے علاوہ کوئی باہر نہیں نکلا۔ پی ٹی آئی کے ایک سابق عہدیدار کے بقول جب پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت محض سوشل میڈیا پر شور شرابہ کرکے جان چھڑا رہی ہے تو کارکنان کیوں باہر نکلیں گے؟
ادھر توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے سبب چودہ اگست کو یوم آزادی پر جلسے کی حسرت بھی عمران خان کے دل میں رہ گئی۔ چند روز پہلے زمان پارک میںہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں یہ نقطہ اٹھایا گیا تھا کہ 9 مئی کے بعد سے کارکنوں کا مورال ڈائون ہے۔ اس ڈائون مورال کو بحال کرنے کی مختلف تجاویزمیں سے اس تجویز پر اتفاق کرلیا گیا تھا کہ یوم آزادی کے ایونٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارکنوں کو متحرک کیا جائے گا۔ بیرون ملک موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ریاست کو گالیاں دلوانے والے چیئرمین پی ٹی آئی نے چودہ اگست کو جشن آزادی کے نام پر کارکنوں کو جلسے جلوس کرنے کی ہدایت جاری کردی تھی، جبکہ خود بھی جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اس سارے پلان پر پانی پھر گیا۔