احمد خلیل جازم :
عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں اس کے وکلا نے پھنسایا، ورنہ یہ کیس پندرہ دن میں ختم ہو جاتا۔ اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے توشہ خانہ اسکینڈل کی اسٹوری بریک کرنے والے صحافی رانا ابرار خالد کا کہنا ہے کہ یہ کیس بڑا واضح تھا۔ لیکن اس کیس میں عمران خان کو ان کے وکلا نے پھنسایا۔ حالانکہ الیکشن کمیشن تو اس پر پہلے ہی بڑا نرم فیصلہ دے چکا تھا۔
’’امت‘‘ سے تفصیلی بات کرتے ہوئے رانا ابرار خالد کا کہنا تھا کہ ’’الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یہ ریفرنس فروری میں سیشن کوٹ اسلام آباد کو بھجوایا تھا۔ اس سے پہلے سولہ حکومتی ایم این ایز نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا تھا کہ عمران خان نے جو تحائف حاصل کیے، وہ بیچے ہیں۔ یہ بات تو میری اسٹوری کے بریک ہونے کے بعد اسیٹبلش ہوچکی تھی کہ تحائف بیچے جاچکے ہیں۔
لیکن خط میں لکھا گیا کہ جو تحائف بیچے گئے وہ سالانہ ایسٹس میں ڈکلیئر نہیں کیے، اس کے لیے ریفرنس بھیجا جائے۔ چنانچہ اسپیکر نے اس پر شارٹ انکوائری کرکے یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا کہ یہ اثاثے چھپانے کا کیس بنتا ہے۔ وہاں ا س کیس کی سماعت ہوئی جہاں عمران خان کے وکلا پیش ہوتے رہے۔ وہاں ہر سال جو عمران خان کے ایسٹس ڈکلریشن جمع کرائے گئے تھے، نکالے گئے تواس میں جو تحائف عمران خان نے لیے تھے وہ ڈکلیئر نہیں کیے گئے تھے۔ یہ سوالات ان کے وکلا کے سامنے رکھے گئے۔
عمران خان کے وکلا کا موقف اس وقت یہ سامنے آیا کہ جو تحائف ایسٹس ڈکلریشن میں شامل نہیں ہیں وہ تو ہمارے موکل نے بیچ دیئے تھے۔ اب دیکھا جائے تو جو ایف آئی آر بنوائی گئی اس کیس کی وہ عمران خان کے وکلا نے ہی ان کے خلاف بنوائی، وہ یوں کہ الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق اگر ایسٹس ڈکلیئر نہیں کیے تو اس پر زیادہ سے زیادہ پانچ برس کی نااہلی کی سزا ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے موکل نے بیچ دیئے تھے، تو اس پر سوال کیا گیا کہ اچھا اگربیچ دیئے تھے تو وہ پیسے آپ نے انکم میں شوکرنے تھے۔ آپ کے موکل نے آمدنی چھپائی ہے۔ جب آمدنی چھپائی جائے تویہاں انکم ٹیکس آرڈینس بھی لاگو ہوجاتا ہے اور مختلف الیکشن ایکٹ کی شقیں بھی لاگو ہوجاتی ہیں اور یہ فوجداری جرم بن جاتا ہے۔ اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا، جو ایسٹ ہیں اگر وہ ڈکلیئر نہ کیے جائیں، مثلاً پلاٹ، گھر، گاڑی، گھڑی وغیرہ ڈکلیر نہیں کی تو اس پر نااہلی ہوتی ہے۔
لیکن اگر آپ انکم ڈکلیئر نہیں کرتے تو بہت سارے مزید قوانین اس پر لاگو ہوکر یہ فوج داری کیس بن جاتاہے۔ اس کے باوجود قانون کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس پر کم سے کم سزا سنائی تھی۔ کرنٹ ایم این اے کی سیٹ سے ڈی سیٹ کردیا تھا اور اگلے الیکشن کے لیے نا اہل بھی نہیں کیا تھا۔ بادی النظر میں کہا کہ یہ فوجداری کیس ہے اس لیے اسے سیشن کورٹ اسلام آباد کو بھجوا دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے ہمدرد کہتے ہیں کہ یہ پہلا کیس ہے، حالانکہ ماضی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن نے چار، پانچ ایم این ایز کو نا اہل کرنے کے بعد ان پر فوج داری کیس سیشن کو بھجوائے تھے۔
آپ کو جمشید دستی کا کیس یاد ہوگا، جب اس کی ڈگری کا ایشو تھا۔ وہ بھی فوج داری بنا کر کورٹ آف لا میں بھجوایا گیا تھا۔ اس کیس میں فروری سے اب تک ملزم کے وکلا نے کیس کا دفاع نہیں کیا۔ دفاع کا مطلب ہے کہ استغاثہ جو آپ پر الزام عاید کررہا ہے، اسے جھوٹا ثابت کرنا۔ اس کے لیے ثبوت دینے ہوتے ہیں۔ لیکن عمران خان کے وکلا نے صرف کیس کو لمبا کرنے کی ٹھانے رکھی کہ اس کارروائی کو روکے رکھو یہ آگے نہ بڑھ پائے۔ تاکہ کسی طریقے سے الیکشن ہوجائے اور ہماری حکومت آجائے اور ہم اپنی مرضی کا فیصلہ لے سکیں۔
اسی لیے متعدد بار اسٹے لیے گئے، متعدد بار کہا گیا کہ یہ کیس بنتا نہیں ہے اور متعدد بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں جاکر اسے رکوانے کی کوشش کرتے رہے۔ وکلا کی تمام صلاحیتیں کیس رکوانے اور اسے لمبا کرنے پر منتج ہوئیں۔ نو مئی تک ان کا سب سے بڑا ہتھکنڈا یہ تھا کہ ملزم عدالت میں پیش نہ ہو، تاکہ فردجرم عاید نہ ہو۔ کیونکہ چارج شیٹ ملزم کے سامنے پڑھ کرسنائی جاتی ہے یا تو پھر پولیس یہ کہے کہ ملزم مفرور ہے۔ لیکن وہ تو روز ٹی وی پر بیٹھا ہوتا تھا، یہ تواتفاق سے ملزم نو مئی کو گرفتارہوا اور اگلے روز دس مئی کو اس کیس کی پیشی تھی۔ چنانچہ کسٹڈی میں اسے عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا، یوں فرد جرم لگ گئی اور کیس کا ایک مرحلہ طے ہوگیا۔
پھر انہوں نے یہ حرکت کی کہ جج کے اوپر الزامات عاید کرنا شروع کردیئے۔ یعنی ایک جج جائے گا، تو دوسرا آگے پھر صفر سے شروع کرے گا اور کیس لمبا ہوتا جائے گا۔ فائل گواہ ہے اس کیس کی کہ ملزم جو کہ اب مجرم بنا ہے تو وہ اس کے وکلا کی وجہ سے کہ انہوں نے اس کیس میں دفاع نہیں کیا۔ دیکھیں بلند تر اخلاقیات پر سیاست شروع کرنے والے عمران خان کا معیار دوسروں کے لیے تھا۔ اگر مخالف سیاست دان نے کوئی بیان بھی دیا تو اسے غدار کہلوایا، کسی کو پھانسی چڑھانے کی بات کی۔
عمران خان کی ڈکشنری میں دو لفظ نہیں ہیں ایک معافی اور دوسرا مخالفین کے لیے رحم۔ جب آپ یہ اعمال کرتے ہیں تولوگوں کا دھیان آپ پر بھی ہوتا ہے۔ اب منافقت کی سیات کا باب بند ہواہے کہ آپ سارے وہی کام کریں جو دوسروں کے لیے حرام قرار دیتے تھے۔ میں پہلے دن سے کہہ رہا تھا کہ عمران خان نے یہ صریحاً جرم کیا ہے، یہ بھول نہیں تھی۔ میں جب یہ اسٹوری بریک کررہا تھا تو مجھے بخوبی علم تھا کہ اس میں اتنا پوٹینشل ہے کہ یہ اس نہج تک جائے گی۔ میں آپ سے بھی کہہ چکا تھا کہ عمران تمام کیسوں سے قانونی موشگافیوں کافائدہ اٹھا کر نکل جائے گا، لیکن توشہ خانہ سے نہیں نکل پائے گا۔ یہ کنکریٹ بیس کیس تھا۔ کیونکہ انہوں نے قبیح کام کیا کہ آپ نے تئیس کروڑ عوام کی عزت دوبئی کے بازارمیں جاکر بیچ دی۔
دوست ممالک کے دیے ہوئے تحفے مارکیٹ میں بیچے۔ آخر میں چھوٹی سی بات کہہ دوں کہ آنے والے دنوں میں جوڈیشری پر بات تو نہیں کی جاسکتی، لیکن میں تجزیہ دے سکتا ہوں کہ چار، پانچ مرتبہ یہ کیس ہائی کورٹ کے ججز کے سامنے آیا اور دو مرتبہ سپریم کورٹ کے ججز کے سامنے بھی آچکا ہے۔ یہ کیس اس چھلنی سے یہ کافی حد تک گزر چکا ہے کہ جب آپ لوئر جوڈیشری کا کیس ہائر جوڈیشری میں لے جاتے ہیں، تو اپنی اپیل کو خراب کررہے ہوتے ہیں۔ ہائر جوڈیشری یہ کیس جانتی ہے وہ بار بار کیوں فیصلے دے رہے تھے کہ ٹرائل کورٹ کو واپس بھیجا جائے۔ انہیں معلوم ہوچکا ہے کہ ملزم گلٹی ہے۔ پری میچیور کیس ہائر جوڈیشری میں لے جانے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ ججز کا مائینڈ بن جاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کا نقصان آگے چل کر بھی ہوگا۔‘‘