ارشاد کھوکھر :
سندھ کی نگراں حکومت میں حصہ داری کے لئے حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا انتخاب پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ مل کر کریں گی۔ اس حوالے سے آج باضابطہ طور پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور متحدہ سے تعلق رکھنے والی سندھ اسمبلی کی اپوزیشن لیڈر رعنا انصار کے درمیان میٹنگ ہوگی۔
وزیراعلیٰ نے نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے جو نام شارٹ لسٹ کرکے پارٹی قیادت کو ارسال کیے ہیں۔ ان میں سید ممتاز علی شاہ، محمد صدیق میمن، علم الدین بلو اور دیگر شامل ہیں۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ نے یونس ڈھاگا، شعیب صدیقی کے نام تجویز کیے ہیں۔ نگراں وزیراعلیٰ کی دوڑ میں جسٹس (ر) مقبول باقر کا نام بھی شامل ہے۔ تاہم معروف بلڈر و تاجر اکبر بھوانی کا نام سرفہرست ہے۔ وزیراعلی اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان نگراں وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ سندھ اسمبلی کی کمیٹی کے پاس بھی جا سکتا ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم نے جی ڈی اے کی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ نگراں وزیراعلیٰ کے لئے وہ ان کی تجویز کردہ نام پیش نہیں کریں گے۔ جی ڈی اے کو نگراں حکومت میں صرف چند وزارتیں دی جائیں گی۔
واضح رہے کہ سندھ اسمبلی میں جی ڈی اے کے اراکین کی حمایت کے بغیر پی ٹی آئی کے حلیم عادل شیخ کی جگہ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن رعنا انصار اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکی تھیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان طے ہوا تھا کہ نگراں سیٹ اپ کے لئے اپوزیشن کی جانب سے وہ مشترکہ نام پیش کریں گے۔اس سلسلے میں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کی قیادت کے درمیان دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔
ذرائع کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے جی ڈی اے کی قیادت پر یہ واضح کر دیا ہے کہ نگراں وزیراعلیٰ کے لئے وہ صرف اپنے تجویز کردہ نام پیش کریں گے۔ جی ڈی اے کی جانب سے جو نام تجویز کیے گئے ہیں۔ وہ وزارت اعلیٰ کے لئے پیش نہیں کیے جائیں گے۔ تاہم نگراں کابینہ میں اپوزیشن کے جو وزیر بنیں گے۔ ان میں جی ڈی اے کو حصہ دیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جی ڈی اے نے اپنی جانب سے نگراں وزیر اعلیٰ کے لئے جو نام تجویز کیے تھے۔ ان میں گریڈ 22 کے ریٹائرڈ بیورو کریٹ فضل اللہ قریشی، نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی و وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی، ڈاکٹر صفدر عباسی اور عبداللہ حسین ہارون شامل تھے۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ نے نگراں وزیراعلیٰ کے لئے جو نام شارٹ لسٹ کیے ہیں۔ ان میں گریڈ 22 کے ریٹائرڈ افسر شعیب صدیقی کا نام بھی شامل ہے۔ ڈی ایم جی گروپ سے تعلق رکھنے والے مذکورہ افسر سندھ میں مختلف محکموں کے سیکریٹریوں کے عہدوں پر خدمات انجام دینے کے ساتھ وفاقی سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
اسی طرح دوسرا نام یونس ڈھاگا کا شارٹ لسٹ کیا گیا۔ یونس ڈھاگا بھی گریڈ 22 میں ریٹائر ہوئے۔ وہ بھی سندھ کے مختلف محکموں میں سیکریٹری رہ چکے ہیں اور وفاقی سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ کی جانب سے ایک اور نام جو تجویز کیا جانا ہے۔ وہ جسٹس (ر) مقبول باقرنقوی کا بھی ہوسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے نگراں وزیراعلیٰ کے لئے موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو پارٹی کی دیگر رہنمائوں سے مشاورت کرکے نام تجویز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سید مراد علی شاہ نے پارٹی قیادت کو جو نام ارسال کیے ہیں۔ ان میں سرفہرست ریٹائرڈ چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کا نام سرفہرست ہے۔ ضلع میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے سید ممتاز علی شاہ کا شمار اچھی شہرت کے حامل افسران میں ہوتا تھا۔ وہ سندھ میں ڈپٹی کمشنرز سے لے کر مختلف محکموں کے سیکریٹری، ایڈیشنل چیف سیکریٹری، چیئرمین اینٹی کرپشن کے عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی حکومت میں بھی مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے دیگر جو دو نام تجویز کیے۔ ان میں ریٹائرڈ چیف سیکریٹری سندھ محمد صدیق میمن کا نام بھی شامل ہے۔ وہ چیف سیکریٹری سندھ کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ تیسرا نام ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ علم الدین بلو کا ہے۔ جو سندھ میں چیئرمین اینٹی کرپشن، موجودہ وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری سے لے کر مختلف انتظامی عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت خصوصاً آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے تجویز کردہ ناموں میں سے کسی ایک پر اتفاق کریں۔ اس سلسلے میں ضلع خیر پور سے تعلق رکھنے والے صنعت کار مبین جمانی کا نام بھی نگراں وزیراعلیٰ کیلئے گردش کرتا رہا ہے۔ ان کا شمار آصف علی زرداری کے قریب رہنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ تاہم سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کے لئے میمن برادری سے تعلق رکھنے والے کراچی کے بلڈر اور تاجر اکبر بھوانی کا نام ’’ڈارک ہارس‘‘ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ’’ڈارک ہارس‘‘ ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک ایسا امیدوار یا مقابلہ مقابلے کی دوڑ میں شامل فرد جس کے بارے میں کم ذکر کیا جارہا ہو۔ لیکن وہ غیر متوقع طور پر کامیاب ہو جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھوانی خاندان کاروباری خاندان ہے۔ ان کا کاروبار نہ صرف ملک، بلکہ ملک سے باہر بھی ہے۔ جس میں اسٹاک ایکسچینج، ہائوسنگ کے شعبے کے ساتھ دیگر بزنس شامل ہیں۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نگراں وزیراعلیٰ کے لئے اس شخصیت کو اہمیت دی گی۔ جس کے کام حکومت میں پھنسے ہوئے ہوں۔ تاکہ عام انتخابات کے بعد جو نئی حکومت بنے تو انہیں اپنے کام نکلوانے میں آسانی ہو۔ اس طرح اکبر بھوانی کا نام ’’ڈاک ہارس‘‘ کے طور پر لیا جارہا ہے۔
نگراں حکومت کے لئے اکثر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان جو اندرونی طور پر رابطے ہوئے ہیں۔ اس میں یہ فارمولا بھی طے پایا گیا ہے کہ نگراں صوبائی کابینہ میں جو وزیر شامل ہوں گے۔ ان میں سے پچاس فیصد حکومت اور پچاس فیصد اپوزیشن کی جانب سے تجویز کردہ ہوں گے۔
اس سلسلے میں متحدہ کی قیادت نے جی ڈی اے کی قیادت کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے حصے میں جتنی وزارتیں آئیں گی۔ ان میں سے ساٹھ فیصد متحدہ کے تجویز کردہ وزیر ہوں گے اور چالیس فیصد جی ڈی اے کی جانب سے تجویز کردہ افراد کو وزیر بنایا جائے گا۔ نگراں صوبائی کابینہ 12 سے 15 افراد پر مشتمل ہوگی۔ اس طرح نگراں سیٹ اپ میں جی ڈی اے کے حصے میں چند وزارتیں آئیں گی۔ تاہم اس میں ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ نگراں صوبائی وزرا کیلئے جو نام تجویز کیے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق مختلف اداروں کی کلیئرنس ہونا بھی ضروری ہے۔ 2018ء میں جو نگراں سیٹ اپ بنا تھا۔ اس میں یہ بات بھی نظر آئی تھی کہ بعض وزرا ایسے تھے۔ جن کے نام مقتدر حلقوں نے پیش کیے تھے۔