امت رپورٹ :
توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ عمران خان کو اگر آنے والے دنوں میں ضمانت پر رہائی مل بھی جاتی ہے تو جیل کی سلاخوں سے ان کا پیچھا چھڑانا آسان نہیں ہوگا۔ کیونکہ انہیں کسی دوسرے کیس میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس کا عندیہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ دے چکے ہیں۔
جبکہ اسلام آباد میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اور اشارہ دیا ہے کہ عمران خان کے ساتھ بھی شہریار آفریدی اور علی محمد خان جیسا معاملہ خارج از امکان نہیں۔ جو متعدد بار جیل سے رہا ہونے کے بعد اندر ہوتے رہے۔ ان ذرائع کے بقول اگرچہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف ڈیڑھ سو کے قریب مختلف مقدمات درج ہیں۔ تاہم ان میں سے ایک درجن ایسے کیسز ہیں، جس میں ان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ان میں سانحہ 9 مئی کے متعدد کیسز، القادر ٹرسٹ کیس، سائفر کیس اور وکیل کے قتل کا مقدمہ سرفہرست ہے۔
9 مئی کے واقعات کے حوالے سے اب تک عمران خان کے خلاف نصف درجن سے زائد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے تین مقدمات لاہور کے ہیں۔ جو کور کمانڈر ہائوس پر شرپسندوں کے حملے کے حوالے سے ہیں۔ عمران خان کے خلاف تھانہ سرور، تھانہ گلبرگ اور تھانہ شادمان میں درج مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی ناقابل ضمانت دفعات بھی شامل ہیں۔
اسی طرح چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف فیصل آباد کے تھانہ سول لائنز اور سمن آباد میں دو مقدمات، راولپنڈی میں تھانہ آر اے بازار اور نیوٹائون تھانہ، جبکہ میانوالی کے تھانہ سٹی اور گوجرانوالہ کے تھانہ کینٹ میں بھی مقدمات درج ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات 9 مئی میں گرفتار ملزمان کے بیانات کی روشنی میں درج کیے گئے ہیں ۔ راولپنڈی میں درج مقدمات کا تعلق جی ایچ کیو پر حملے اور فیصل آباد میں مقدمات اہم قومی ادارے کے ذیلی دفتر کو نشانہ بنانے کے بارے میں ہیں۔ میانوالی میں درج مقدمہ کا تعلق پی اے ایف ایئر بیس پر شرپسندوں کے حملے سے ہے۔ اس واقعہ میں پی ٹی آئی کے شرپسندوں نے ایئر بیس پر کھڑے طیارے کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ 9 اور 10 مئی کو ہونے والے جلائو گھیرائو کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ چھ ارب روپے لگایا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے سابق وزیر اعظم کے خلاف درج مقدمات میں شواہد اور گرفتار ملزمان کے بیانات اس قدر ٹھوس ہیں کہ ان میں سزا سے بچنا ان کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ اس بارے میں اب تک گرفتار ملزمان نے جو بیانات دیئے ہیں۔ ان سب میں چیئرمین پی ٹی آئی کو اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا عمران خان کو ان مقدمات میں طویل سزا خارج از امکان نہیں۔ اس سلسلے میں تحقیقات تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ لہٰذا عمران خان اگر توشہ خانہ کیس میں ضمانت پر باہر آتے ہیں تو انہیں دوبارہ دھرا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ سانحہ 9 مئی کے حوالے سے عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زائد رہنمائوںکے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق اسی طرح القادر ٹرسٹ کا معاملہ بھی ’’اوپن اینڈ شٹ کیس‘‘ ہے۔ سائفر کیس بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جبکہ کوئٹہ میں وکیل کے قتل کا مقدمہ بھی سابق وزیر اعظم کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کیس میں جب بھی عمران خان کی گرفتاری ہوتی ہے تو انہیں مچھ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔
ذرائع کے بقول اس منظر نامے میں یہ ممکن نہیں کہ توشہ خانہ کیس میں کوئی ریلیف مل جانے کی صورت میں عمران خان رہا ہوکر دوبارہ زمان پارک میں ڈیرہ جمالیں گے اور بطور یو ٹیوبر اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کا سلسلہ پھر شروع کر دیں گے۔ یہ واضح ہے کہ سابق وزیر اعظم کو ایک کیس میں ریلیف ملتا ہے تو دوسرے میں گرفتار کرلیا جائے گا۔
دوسرے میں ضمانت ملتی ہے تو تیسرے مقدمے میں قیدیوں کی وین ان کی منتظر ہوگی۔ قصہ مختصر، عمران خان کے اٹک جیل جانے سے جو سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس کے مزید طویل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ فی الحال انہیں توشہ خانہ کیس میں بھی فوری ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی بچی کھچی قیادت، ان کے وکلا اور سوشل میڈیا ٹیم نے ایک دو روز میں سزا معطل ہونے اور پارٹی چیئرمین کی رہائی کی نوید سنانی شروع کر دی تھی۔ تاہم چھ روز گزر جانے کے باوجود ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی ہے۔
بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میںہونے والی سماعت کے دوران عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست تسلیم نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے فریق کو سنے بغیر سزا معطل نہیں کی جا سکتی۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کا پُرزور اصرار تھا کہ آج ہی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی جائے۔ اب سزا کی معطلی کی درخواست کی سماعت چار پانچ روز بعد ہوگی۔
یعنی اگر سزا معطل ہو بھی جاتی ہے (جس کا فوری امکان کم ہے) تو عمران خان کو ابھی مزید ایک ہفتہ جیل میں رہنا پڑے گا۔ اسی طرح عمران خان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقلی کا معاملہ بھی مزید دو دن کے لئے لٹک گیا ہے۔ اس درخواست کی سماعت گیارہ اگست کو ہوگی۔ تاہم عدالت نے عمران خان کو اتنا ریلیف ضرور دیا ہے کہ اٹک جیل حکام کو حکم دیا گیا ہے کہ جیل مینوئل کے مطابق بطور وزیر اعظم انہیں سہولیات فراہم کی جائیں۔